وفاقی وزیر خزانہ کا اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کا ٹھوس عندیہ 

Dec 02, 2022

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 5 سال میں ملک سے سود کا خاتمہ ممکن ہے۔ غیر رسمی سودی نظام بہت بھیانک ہے۔ غریب شدید متاثر ہوتے ہیں۔ اسے ختم کرنا ہو گا۔ 21 فیصد اسلامی بینکنگ سسٹم آ چکا ہے اور اسلامی بینکنگ کے اثاثے 7 ٹریلین روپے کی سطح پر ہیں۔ اسلامی بینکاری نظام کے ساتھ معیشت کو بھی بھنور سے نکالنا ہے۔ اسلامی بینکنگ کی پراڈکٹس کو سستا کرنا ہو گا۔ میثاقِ معیشت قوم کی ضرورت ہے۔ معیشت کو خسارے کا سامنا ہے۔ پاکستان نے نہ پہلے کبھی ڈیفالٹ کیا نہ اب کرے گا۔ میوچل فنڈز اور انشورنس کو اسلامی بنیاد پر لانا ہو گا۔ سود کے خلاف اپیلیں واپس لینا میری ترجیحات میں شامل تھا۔ ڈالر 200 روپے پر آئے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو فیڈریشن ہائوس کراچی میں حرمتِ سود کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے اپنے کلیدی خطاب میں کیا۔ 
پاکستان میں سود سے پاک بینکاری نظام کے حوالے سے وفاقی شریعت عدالت نے جو فیصلہ صادر کیا تھا اس پر عمل درآمد کے سلسلے میں اگرچہ حکومت کی طرف سے دو سرکاری بینکوں اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستیں واپس لے لی ہیں لیکن دیگر بینکوں اور متعدد افراد کی طرف سے جن درخواستوں میں شریعت کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا وہ تاحال واپس نہیں لی گئیں اس لئے عدالتِ عظمیٰ ترجیحی بنیادوں پر ان درخواستوں کی سماعت کرکے کم سے کم مدت میں ان پر اپنا فیصلہ صادر کردے۔ 
سود سے پاک بینکاری نظام آئین کا تقاضا بھی ہے جسے آج تک ہر حکومت نظر انداز کرتی چلی آئی ہے، حالانکہ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ ملک میں اسلامی شریعت سے متصادم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔عظیم الشان صحیفۂ آسمانی قرآنِ مجید و فرقان حمید میں سود کے حوالے سے بڑی واضح آیات موجود ہیں۔ سورۃ العمران میں کہا گیا ہے کہ (ترجمہ) اے ایمان والو! دگنا دَر دگنا سود نہ کھائو اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیات 278,276,275 میں سود کے قطعی حرام ہونے کے بارے میں وعیدیں آئی ہیں۔ سود کو حلال جاننے والا کافر ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے حضور سید المرسلینؐ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدسؐ نے ارشاد فرمایا ’’سود کے گناہ کے 73 درجے ہیں۔ ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے حرام کاری کرے۔‘‘ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی قرآنی آیات و احادیث سود کے حوالے سے موجود ہیں۔ جن سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ سود کو کسی طور پر بھی ہماری زندگیوں میں دخیل نہیں ہونا چاہیے ۔  ریاست ِپاکستان اسلامی جمہوریہ کہلواتی ہے ۔ جسے کلمہ طیبہ کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ تحریک پاکستان میں نعرہ بھی یہی تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘۔ جس کا آسان الفاظ میں مطلب بھی یہی تھا کہ پاکستان پاک دھرتی ہے اور اللہ کی اس پاک دھرتی پر اللہ ہی کا نظام ہو گا۔ اس حوالے سے بانیٔ پاکستان نے بھی اپنی بعض تقاریر میں ذکر کیا تھا۔ 1973ء میں جب پاکستان کا آئین تیار ہوا تو اس کی تیاری میں اس وقت کے جید علماء نے بھی کردار ادا کیا تھا جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اس آئین کے پیش لفظ میں ہی درج ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہی قانون سازی کی جا سکتی ہے ۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں قانون سازی کے وقت  اس اہم آئینی تقاضے کو نظر انداز  کیا جاتا رہا ہے  اور قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی کر کے آئین کی صریح خلاف ورزی کا ارتکاب کیا جاتا رہا ۔ بلاسود بینکاری کے حوالے سے بھی گزشتہ 2 دہائیوں سے  لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ غنیمت ہے کہ موجودہ حکومت نے اس کام کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ سود کی حرمت کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا آغاز کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لے لی ہیں اور یہ عندیہ  بھی دیدیا ہے کہ 5 سال میں ملک سے سود کا خاتمہ ممکن ہے۔ 
لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ محض بنکوں کے نظام کو ہی سود سے پاک کر دینے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہونگے۔ نہ ہی شریعت کی منشا پوری ہوگی۔ اصل اور اہم کام پورے معاشی نظام سے سود کو بے دخل کرنا ہے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سمیت عالمی ادارے سود پر ہی قرض دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی معاہدوں میں بھی سود کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ہمارے تمام بجٹ ‘ فنانس بل اور لین دین سود کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیںبینکاری نظام سے آگے بڑھ کر پورے نظام معیشت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے پاس پانچ سال کا عرصہ ہے۔ 2027ء تک وہ تمام معاملات جن میں سود کا عمل دخل ہے‘ ان سے سود کو خارج کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے مقامی علمائ‘ مفتیاں کرام اور ماہرین معاشیات کی رہنمائی حاصل کی جانی چاہئے۔ اسی طرح جن ممالک میں اس وقت غیرسودی نظام رائج ہے‘ ان سے بھی استفادہ کرنا ہوگا۔ یہ ایسا لاینحل اور ناممکن ٹاسک نہیں ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنے بینکاری سسٹم سمیت تمام نظام معیشت کو سود سے پاک کر سکتے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ ملک میں زکوٰۃ و عشر کے نظام کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ اس نظام کے عملاً نفاذ کے بعد ہماری معیشت میں یقینی طورپر استحکام آئے گا۔ بیرونی مالیاتی اداروں سے نجات مل سکے گی اور پاکستان کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے گی‘ تاہم یہ معرکہ سر کرنے کیلئے نیت و ارادے کو بنیادی شرط قرار دیا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے بظاہر آمادگی ظاہر کر دی ہے‘ لیکن اس کے پاس ایک سال سے بھی کم وقت ہے جس میں تمام اہداف تو حاصل نہیں ہو سکیں گے‘ لیکن معیشت کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کیلئے کم از کم صحیح سمت پر ضرور ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت اسلامی نظام معیشت کی بنیاد رکھ دیتی ہے تو اس ملک میں اسلامی بنکاری اور سود سے پاک معیشت کا نظام جب بھی نافدالعمل ہوگا‘ اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو ہی جائے گا۔ حکومت کو اس میں پہل کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

مزیدخبریں