صاحب زادہ ذیشان کلیم معصومی
اسلامی تعلیمات اور قرآن و حدیث میں حقوق العباد کے ضمن میں ہمسایوں کے حقوق کا بار بار ذکر آیا ہے۔ پڑوسی رشتہ دار،یہ وہ ہمسائے ہیں جن کا حق دیگر ہمسایوں کی نسبت مقدم ہے ۔اجنبی پڑوسی ،اس سے مراد وہ ہمسایہ ہے جو رشتہ دار نہیں ہے صرف ہمسایہ ہے اس کا درجہ پہلے والے سے اگرچہ کم ہے اس کے بعد ہم نشین بھی شمار ہوتے ہیں۔ خود مالک کائنات اللہ کریم ہمسایوں کے بارے میں اپنے لافانی کلام قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ اور اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور حسن سلوک سے پیش آئو والدین کے ساتھ،قرابت داروں کے ساتھ،یتیموں ،مسکینوں کے ساتھ ،پڑوسیوں کے ساتھ خواہ قرابت والے ہوں خواہ اجنبی نیز آس پاس کے بیٹھنے والوں مسافروں کے ساتھ اور جو (لونڈی یا غلام یا ملازم ) تمہارے قبضے میں ہوں ان کے ساتھ (کیونکہ)اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اترائیں اور بڑائی مارتے پھریں (النسائ)اور اللہ کے پاک نبی کریم کی حدیث مبارک میں ہے حضرت ابو شریح ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے ،بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے،بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے پوچھا گیا یارسول اللہؐ !کون؟آپ نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو سیدہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ رسول پاک نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل امین ہمیں ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ اس کو وارث بنا دیں گے ۔
آج کے اس دور میں ہم پڑوسی کے حقوق پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتے بلکہ لوگوں کے نزدیک یہ کوئی دین کا تقاضہ ہی نہیں کیونکہ اکثر لوگ عبادات نماز ،روزہ ،حج ،زکوۃ کو ہی بس دین اسلام سمجھتے ہیں اور دوسری جانب اگر اخلاقیات بالخصوص پڑوسی کے حقوق پر احادیث نبوی کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے ایمان اسی طرح خطرے میں پڑ جاتا ہے جس طرح عبادات نماز،روزہ ترک کرنے سے ۔پڑوسی سے مراد آس پاس کے مکان ،دکان ،فلیٹ،یا دیگر عمارتوں میں رہنے والے لوگ ہیں البتہ پڑوسی کی ایک اور قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی وجہ سے ہم نشینی کا سبب بن جاتی ہے اگر ہم سورۃ النساء کو سامنے رکھیں تو صورتحال کچھ یوں بن جاتی ہے کہ ،ہم نشین یا پہلو کا ساتھی،یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو اس اصطلاح کے مطابق ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ دفتر ،فیکٹری یا کسی ادارے میں سکول وکالج میں پڑھنے والے طلباء دوست اور دیگر ملنے جلنے والے لوگ شامل ہیں چنانچہ پڑوسی کے لٖفظ کو قرآنی آیت کی روشنی میں ان سب پر وسعت دی جانی چاہیے اس وسعت کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون ہمسایہ ہے اور کون نہیں ؟کچھ علماء کرام نے اردگرد کے ۴۰ گھروں کو پڑوس میں شمار کیا ہے لیکن یہ تعین مناسب نہیں آج کل کی جدید شہری زندگی میں پرانے محلوں کا تصور بدلتا جارہا ہے گھروں اور کوٹھیوں کے نزدیک بعض اوقات دور دور تک کوئی گھر نہیں ہوتا تو پھر ان کا ہمسایہ کون کہلائے گا اسی طرح متوسط علاقوں میں زندگی کی تیزی کے باعث گھر والوں سے ہی ملاقات نہیں ہو پاتی چہ جائیکہ دور ۴۰ گھروں کی خبر گیری کی جائے چنانچہ ہمسائیگی کی تعریف میں دائیں ،بائیں سامنے اور پیچھے کے گھر شامل ہیں اب اس میں کتنے گھر شامل ہیں محلے کی وسعت کو دیکھ کر ہر آدمی اندازہ لگا سکتا ہے قرآن مجید نے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے اور احسان کے عربی میں معنی بہت وسیع ہیں کہ جس سے مراد کسی کو اس کے جائز حق سے زائد دینا ہے چنانچہ معلوم ہوا کہ اللہ نے قرآن میں حقوق کی ادائیگی سے ایک قدم آگے جا کر ہمسایوں کی ساتھ احسان بھلائی خیر خواہی اور اچھے تعلق کی ہدایت فرمائی ہے۔ حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ حضورپاکؐ نے فرمایا کہ اے ابو ذر ؓ جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربہ کو زیادہ کرکے اپنے پڑوسی کی خبر گیری کر لے سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ اے اللہ کے رسول ؐ!میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو ان میں سے ہدیہ بھیجوں ؟تو آپ ؐنے فرمایا کہ جس کا دروازہ تیرے سے زیادہ قریب ہو ۔