سیدہ زلیخا

خالد بہزاد ہاشمی
 حضرت بابا صاحب کے کھانے کے لئے بازار میں دستار گروی رکھ دی
’’تمہارے لنگر میں70 منٹ نمک خرچ ہو‘‘ حضرت بابا صاحب کی دعا
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی عظیم خانقاہ پر جہاں سینکڑوں درویش قیام کرتے اور ہزاروں زائرین کے آمدورفت رہتی وہیں حضرت بابا صاحب کے ہاں فقر وفاقہ کا راج تھا آپ کے خلیفہ اور داماد حضرت بدرالدین اسحاق جنگل سے لکڑیاں لاتے ،ہمارے جدامجد حضرت جمال الدین ہانسوی کریر کے درخت پر لگنے والا جنگلی پھل ڈیلہ مولانا حسام الدین کابلی پانی لاتے اور دیگیں صاف کرتے جبکہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ان ڈیلوں کو اپنے ہاتھ سے پکا کر حضرت بابا صاحب اور حاضرین مجلس کے روزے افطار کراتے۔ ایک مرتبہ فاقہ چل رہا تھا حضرت بابا صاحب نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سے فرمایا:’’اے بابا! نظام الدین کوئی چیز پکا کر لائو آپ کے پاس بھی اس وقت کچھ رقم نہ تھی وہ بازار جاتے ہیں اور اپنے سر پر وقار سے دستار اتار کر دکاندار کے پاس گروی رکھتے ہیں اور اس سے لوبیا خرید کر پکا کر حضرت بابا صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے بہت خوش ہو کر تناول فرمایا پھر سرمبارک پر نظر پڑی تو دریافت کیا کہ دستار کدھر ہے؟ تو حضرت محبوب الٰہی نے نگاہیں نیچی کرکے سر جھکا دیا۔ حضرت بابر صاحب فوراً سمجھ گئے کہ یہ کھانا دستار کے بدلے میں پکایا ہے۔ بے ساختہ فرمایا کہ خوب پکایا ہے اور نمک بھی خوب ڈالا ہے۔ خدا کرے تمہارے لنگر میں 70 من نمک خرچ ہوا کرے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ حضرت بابا صاحب کی یہ دعا کیسے قبول ہوئی کہ روزانہ منوں نمک آپ کے لنگر میں خرچ ہوتا، سینکڑوں اونٹ اور گھوڑے پیاز اور دیگر اشیائے صرف کے چھلکے، پتے وغیرہ غیاث پور کی خانقاہ سے روزانہ اٹھا کر لے جاتے۔ بادشاہ وقت رشک اور حسد سے جلتے کہ اصل حکومت تو دہلی پر حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کی ہے۔
سلطان المشائخ کا لقب حضرت شاہ رکن عالم نے عطا کیا
خلافت عطا ہونے کے بعد حضرت محبوب الٰہی نے سلسلہ چشتیہ کے فروغ کے لئے پورے ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے دور افتادہ علاقوں میں بھی اپنے خلفاء روانہ کئے۔ دکن کی سلطنت اور صوبوں، مالوہ، گجرات، کشمیر، کیرالہ، بنگال، لکھنوتی، پینڈائو غرضیکہ تمام قابل ذکر مقامات پر سلسلہ چشتیہ کو فروغ ملا۔ اور وہ علاقے جو قبل ازیں سلسلہ سہروردیہ کے زیر اثر تھام وہ بھی حضرت کی تعلیمات اور حسن سلوک سے سلسلہ چشتیہ کی ولایت میں آگئے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت نظام الدین اولیاء کے لئے سب سے پہلے سلطان المشائخ کا لقب سلسلہ سہروردیہ کے سرتاج حضرت شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی کے پوتے حضرت شیخ شاہ رکن الدین ابوالفتح نے استعمال کیا اور آپ کو ہی حضروت نظام الدین اولیاء کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا جن پر آپ ہمیشہ فخر کرتے۔ 
حضرت بی بی زلیخا
 دہلی میں خشک سالی ہے اور عرصہ سے بارش نہیں ہوئی، مخلوق خدا پریشان حال پھرتی ہے اور دعائیں مانگتی ہے لیکن باران رحمت کا نزول نہیں ہوتا ایسے میں حضرت محبوب الٰہی کے عقیدت مند ایک دوسرے سے عرض کرتے ہیں کہ کیوں ناں حضرت کی بارگاہ میں دعا کے لئے حاضر ہوں، چنانچہ مخلوق خدا کی بڑی تعداد غیاث پور میں آپ کی چوکھٹ پر حاضر ہو کر حرف مدعا زبان پر لاتی ہے، لوگوں کا سوال سنا اور آپ مسجد میں منبر مبارک پر تشریف فرما ہوئے، لوگوں نے دیکھا کہ حضرت کے دست مبارک میں ان کی والدہ محترمہ کی قمیض کا پرانا کپڑا ہے، حضرت محبوب الٰہی کے دونوں ہاتھ بارگاہ ایزدی میں بلند ہیں اور آپ حق تعالیٰ سے بھی دعا فرما رہے ہیں کہ اے باری تعالیٰ یہ قمیض کا کپڑا اس ضعیفہ کا ہے جس پر کبھی کسی نامحرم کی نگاہ نہیں پڑی تجھے اس کپڑے کی حرمت کا واسطہ تو باران رحمت نازل فرما حضرت محبوب الٰہی کی دعا ختم ہوئی اور اہالیان دہلی نے دیکھا کہ یکلخت آسمان پر کالی گھٹا چھا گئی۔ بادل امنڈ آئے اور شہر بارش سے جھل تھل ہوگیا مخلوق خدا کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے، لوگو! آخر یہ قمیض کا ٹکڑا کس خاتون محترم کا ہے؟ یہ وہی قابل فخرماں ہیں جو ننھے یتیم لخت جگر نظام کو کلیجہ پر پتھر کی سل رکھ کر فاقے کے ساتھ مکتب بھیجتی اور ساتھ یہ بھی فرماتیں کہ بیٹا آج ہم اللہ کے مہمان ہیں اور ننھے نظام کا معصوم دل پھر سے ماں کے منہ سے یہی جملہ سننے کا مشتاق رہتا کیونکہ اللہ کے مہمان ہونے کا سن کر انہیں جو لطف و سکون ملتا وہ اسے بیان کرنے سے قاصر تھے۔ اور ایک مرتبہ پورے تین دن بھی فاقہ کیا اس غیور خاندان کی فی ہفتہ آمدن تین جیتل تھی اور اس دور میں ایک جیتل میں بمشکل چند روٹیاں ہی آتی تھیں۔ یہ عابدہ زاہدہ ماں سید زلیخا ہیں جن کا تعلق بہت مالدار گھرانے سے تھا لیکن ان کی خاندانی غیرت نے کبھی بھی دولت مند بھائیوں سے دینے کے باوجود مدد لینا گوارا نہ کی فاقہ کشی میں سوت کاٹ کر اپنے بچوں کی پرورش کی اور اپنے اکلوتے صاحبزادے کو اعلیٰ زیور تعلیم سے بھی آراستہ کیا آفرین ، صد آفرین اس ماں پر جس نے بدایوں میں اپنی تمام جائیداد فروخت کرکے بیٹے کو اعلیٰ ترین تعلیم دلائی سوت کاٹ کر کپڑا تیار کرکے دستار بنائی اور دستار بندی کی بڑی تقریب میں شہر کے جید علماء کرام تشریف لاتے ہیں۔ روایات کے مطابق آپ کے استاد محترم مولانا علائوالدین اصولی، حضرت خواجہ علی(مرید خاص حضرت شیخ جلال الدین تبریزی) نے آپ کے سرمبارک پر دستار فضیلت باندھی اور آپ کے حق میں دعائے خیر فرمائی کہ یاللہ! نظام الدین  کو علماء کرام کی صف میں شامل فرما اور اپنے فضل و کرم سے بلند مرتبہ پر فائز فرما! اور یہ والدہ محترمہ کی تربیت اور انہی بزرگان کی دعائوں کا صدقہ تھا کہ آپ کی علمی قابلیت، دانشمندی اور دانشوری زبان زد و عام ہوگئی اور آپ ہر مشکل سے مشکل مسئلہ اور سوال برجستہ دلائل کے ساتھ دینے پر قادر ہوگئے ۔ علمی و ادبی حلقوں میں مولانا نظام الدین بحث شکن، محفل شکن کے خطاب سے مشہور ہوگئے۔والدہ کے وصال کے پچاس سال بعد ستر برس کی عمر میں بھی والدہ محترمہ کا ذکر کرتے ہوئے آنسوئوں اور ہچکیوں میں الفاظ کا سمجھنا دشوار ہو جاتا۔ انہیں جب تک چلنے کی سکت رہی وہ قطب مینار کے نزدیک والدہ محترمہ کی قبرمبارک کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے رہے، یوں حضرت محبوب الٰہی نے اسلامی تہذیب میں خواتین کے احترام کی ایک روشن مثال قائم کی۔
٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن