عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
ایک ادارے کو اگر کسی قابل، محنتی اور ذہین انسان کی سربراہی میں دے دیا جائے تو وہ اپنی بہترین حکمت عملی سے کم وسائل کے اندر رہتے ہوئے تباہ حال ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتا ہے۔ لاہور کا جنرل ہسپتال جہاں روزانہ ڈیڑھ لاکھ مریضوں کا علاج ہوتا ہے میں اگر کبھی آپ کا جانا ہو تو یقینا لاہور کے دوسرے بڑے ہسپتالوں کی نسبت یہاں کا ڈسپلن آنکھوں کو سکون بخشتا ہے۔
فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر،پریذیڈنٹ آف سوسائٹی گائنی پاکستان اور معروف گائنا کالوجسٹ،پروفسیر ڈاکٹر محمد سردارالفرید ظفر وہ نام ہے جو تین سال قبل جب پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ، امیر الدین میڈیکل کالج اور لاہور جنرل ہسپتال کے پرنسپل تعینات ہوئے تو کسی نے اس وقت یہ نہ سوچا تھا کہ جنرل ہسپتال کی تقدیر اب بدلنے والی ہے، لیکن ان تین سالوں جنرل ہسپتال وہ سائبان بنا جہاں اب ملک بھر سے مریض بھیجے جاتے ہیں۔جبکہ جنرل ہسپتال لاہور کو تمام سرکاری ہسپتالوں کے لیے مثال بنا دیا گیا۔
پروفسیر ڈاکٹر محمد سردار الفرید ظفر ملتان کی تحصیل کبیر والہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے دادا اور نانا تقسیم سے قبل ڈی سی رہے۔
پروفسیر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر کے والد ڈاکٹر حیات ظفر پی ایم ڈی سی کے صدر اور 15 سال نشتر ہسپتال کے پرنسپل رہے۔ اس کے علاوہ کالج آف فزیشن سرجن کے صدر اوریو ایچ ایس کے پہلے وی سی تھے۔ڈاکٹر الفرید ظفر کی بیوی کے داداتقسیم ہند سے قبل کمشنراورپاکستان بننے کے بعد پنجاب کے پہلے سیکرٹری ریونیو رہے۔جبکہ ان کے سسروزیر صحت کے منصب پرفائض رہے۔ جنرل ہسپتال لاہور کو بہرتین ہسپتالوں کی فہرست میں لاکھڑا کرنے کے لیے پروفسیر ڈاکٹر محمد سردار الفرید ظفر نے کیا کیا اقدامات اٹھائے جاننے کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو نذر قارئین ہے۔
پروفسیر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر:صحت کا شعبہ ایسا شعبہ ہے جہاں کوئی ایک اقدام کافی نہیں، جدید طبی سہولیات کے لیے ضروری ہے کہ وقت کے ساتھ چلا جائے۔
ہم نے کویڈ میں چالیس ہزار مریض دیکھے، فری پی سی آر ٹیسٹ ہوئے۔ تین سو کے قریب
مفت کویڈ ویکسینیشن لگائیں۔ہماری لیب Confirmative لیب بن گئی۔ یعنی اگر کسی مریض میں شک ہوتا تھا کہ اسے کورونا وائرس ہے یا نہیں تو اس مریض کو ہمیں Refer کیا جاتا تھا۔ آج ہماری لیب ملک کی بہرتین لیبز میں سے ایک ہے۔
ہم نے جنرل ہسپتال کے گائناکالوجی ڈیپارٹمنٹ کو ایڈوانس کیا، یہاںلیپرو سکوپی سرجری شروع کی جو کہ سوائے ایک گورنمنٹ ہسپتال کے اور کہیں نہیں ہو رہی۔اس کے علاوہ انمول کینسر ہسپتال میں جو بھی کینسر کا مریض ایڈوانس لیپرو سکوپک سرجری کا ہو وہ بھی ہماری طرف بھیجا جاتا ہے۔ہمارا گیسٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ بہت ایڈوانس ہو چکا ہے اور کامیابی کیساتھ چل رہا ہے۔پی کے ایل آئی ٹرانس پلانٹ خود کرتا ہے لیکن کچھ اینڈو سکوپی کے مریض ہماری طرف بھیجے جاتے ہیں۔اینڈو سکوپی گیسٹرو اور لیپرو سکوپک سرجری کے لیے پورے ملک سے مریض ہمیں Refer کیے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہر طرح کی ایڈوانس سرجریز جو ہر جگہ نہیں ہوتیں ہو رہی ہےں۔
ٹی بی کی مکمل تشخیص کے لیے جین ایکسپرٹ کا آغاز کیا۔ہم نے اپنی لیب میں بہت ساری انویسٹی گیشنز شامل کیں۔کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی ہسپتال کی لیب اور بلڈ بینک ایڈوانس نہیں ہوں گے تو سسٹم آگے نہیں چل سکتا۔ میرا ماننا ہے کہ سرکاری لیبز ہونے کے باوجود مریض کو باہر کی پرائیوٹ لیب نہیں جانا چاہیے۔جنرل ہسپتال کی لیب کی بات کروں تو یہاں جدید مائیکرو سکوپس ہیں۔
یہاں نئی ڈیجیٹل ایکسرے مشین، ایک ایم آر آئی اور سی ٹی سکین مشین کا اضافہ ہوا ہے۔
ڈائلیسز کے لیے مزید مشینز لانے والے ہیں، ہمارے ایک ڈونر ہیں جنھوں پہلے بھی مشینز ڈونیٹ کی تھیں اب وہ مزید 150 مشینز ڈونیٹ کر رہے ہیں۔انرجی سے متعلق کام یہ کیا کہ ہسپتال کے پاس ایک گریڈ سسٹم تھا جسے ہم نے نیشنل گریڈ سسٹم کے ساتھ جڑوا دیا ۔اب یہاں لائٹ نہیں جاتی، اگر پورے ملک میں بریک ڈاؤن ہو تو ہی یہاں لائٹ جائے گی ورنہ ہسپتال کی لائٹ نہیں جاسکتی۔اس کے علاوہ یہاں سب سے پہلے سولر سسٹم نصب ہوا۔
میں نے وزیر اعلی پنجاب کو ماڈل آف تھیٹرز کا پلان دیا۔یہ 30 ماڈل آف تھیٹرز ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کی کام سے سنجیدگی ہے کہ انھوں نے میرے پلانز کو اہمیت دی اور اب ہم اپنے پلا ن کو عملی جامہ پہنانے جا رہے ہیں۔جنرل ہسپتال لاہور پنجاب کے تمام ہسپتالوں کے لیے مثال بنے گا۔ڈاکٹرز کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی بات کروں تو ان کے لیے ایک کیفے کیٹریا بنایا اس کے علاوہ ایک جم بنایا ہے ، یہ ٹمریچر کنٹرول جم ہے۔
پروفسیر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر نے مزید کہا کہ لیول 4 فیلو شپ کا آغاز کیا ہے۔ یعنی میڈیسن میں ایف سی پی ایس یا ایم آر سی پی پارٹ ٹو کرنے کے بعد گیسٹرو لوجی میں سپیشلائزیشن ہوتی ہے۔ یہ سپر سپیشلائزیشن ہے۔آفسلمولوجی کے دو ڈپلومہ ہیں جن میں سپیشلائزیشن ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ وائرولوجی اور انفیکشن ڈیسیزز میںہم سپیشلائزیشن کروا رہے ہیں۔
شعبہ گائنی میں ہم فیٹس میڈیسن اور آئی وی ایف کی سہولت شروع کرنے والے ہیں۔
یہ ٹریٹمنٹ بہت مہنگے ہیں اور غریب لوگوں کی دسترس سے باہر بھی لہذا میں چاہتا ہوں کہ اگر یہ سہولیات غریبو ں کو مفت ملیں یا سستے داموں ملیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا ہے۔
اسکے علاوہ ابنارمل بے بیز یا مسلسل مس کیرجز کے کیسزکے لیے ہم ایک ٹیکنالوجی لائے ہیں۔ یہ ٹیسٹ ہے جو ماں کے خون سے ہوتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ بچہ نارمل ہے یا ابنارمل۔بچہ ضائع ہونے کی صورت میں وجہ جاننے کے لیے کہ یہ معاملہ کیسے ہوا، بچہ ٹھیک تھا یا نہیں وہ بھی ایک ٹیسٹ سے معلوم کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ بریسٹ کینسر کا وہ سکریننگ ٹیسٹ بھی یہاں شروع ہونے والا ہے جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مریضہ کی ماں ، بہن یا بیٹی میں بریسٹ کینسر کی جین موجود ہے یا نہیں۔یہ ٹیسٹ لاکھوں کی لاگت پر مشتمل ہے، لیکن ہم اس کی لاگت بہت کم رکھیں گے۔
جنرل ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر تقریبا ڈیڑھ لاکھ مریض آتے ہیںاور زیادہ تر مریض دیہاتی علاقوں سے آتے ہیں۔ ہر بیڈ کے لیے ہم نے ایک ڈاکٹر اور ایک نرس مختص کر رکھی ہے جو کہ اور کہیں نہیں۔
ہم نے گورنمنٹ کو کہا ہے کہ قصور کے ٹیچنگ ہسپتالوں کو ہمارے ساتھ بطور انسٹی ٹیوٹ شامل کریں۔اس سے یہ ہوگا کہ قصور کے پسماندہ علاقوں سے آنے والے مریضوں کو لاہور نہیں آنا پڑے گا۔ میںنے یہ درخواست بھی کی ہے کہ ہمیں مزید کچھ ڈسٹرکٹ بھی دے دیں مثلا ننکانہ وغیرہ۔ان ہسپتالوں میں اچھے آئی سی یو ز ہیں لیکن فیکلٹی اتنی نہیں کہ چلا سکے۔لہذا ہم نے کہا کہ ہم ذمہ داری لیتے ہیں کہ ہم ان کے ڈاکٹرز کو ٹرینڈ بھی کریں گے اورفیکلٹی بھی مہیا کریں گے۔
سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کی وجہ سے قائم تاثر کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے کے جواب میں پروفسیر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر نے کہا کہ جنرل ہسپتال کی اگر میں بعد کروں تو پہلے دن سے آج تک میری کوشش ہے کہ مریضوں کی ہر ممکن کوخدمت کروں۔ بڑھتی آبادی کی بناءپر وسائل کم ہیں جس کی وجہ سے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میں نئے ہسپتال بنانے کے حق میں ہوں لیکن میری اولین ترجیح یہ ہوگی کہ موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے پہلے ان ہسپتالوں کی حالت بہتر کروں جو کئی سالوں سے کام کررہے۔ وہاں سہولیات میںاضافہ ، دواؤں، اور ٹیسٹ کا معیار بلند ہو، مریضوں کے لیے بیڈز بڑھائیں جائیں،نئے وارڈز بنیں، نئے ڈیپارٹمنٹ اور لیب ہوں۔ہماری جو ری ویمپنگ ہو رہی ہے اس سے 50سے70 بیڈز کا اضافہ ہو جائے گا۔
کئی کئی سالوں کے بنے ہسپتالوںکا سیوریج سسٹم بہتر کیا جائے۔یہاں تو لوگ نلکے اتار لیتے ہیں، دوائیں چوری کرلیتے ہیں، مشین چرا لیتے ہیں۔مسئلہ سسٹم کا ہے، ایسے سسٹم میں رہ رہے ہیں کہ کام کرنے کے لیے دگنی محنت کرنا پڑتی ہے۔