ملک کے مقبول ترین کھیل کا مستقبل خطرے میں، بچائے گا کون؟؟؟

حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا پہنچ چکی ہے، یہ تین ٹیسٹ میچز اہم بھی ہیں ، مشکل بھی ہیں اور انفرادی طور پر کئی کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا بڑا امتحان بھی ہے۔ قومی ٹیم کے نئے ٹیسٹ کپتان شان مسعود بہتر کھیل کی اُمید کے ساتھ آسٹریلیا گئے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان کی موجودہ ٹیم تجربے اور صلاحیت میں نسبتاً کم ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے مشکل وقت میں ہی نئے کھلاڑی سامنے آتے ہیں ، پرفارم کرتے ہیں ، نام بناتے ہیں اور پھر ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ پاکستان نے طویل دورانیے کی کرکٹ کو گزشتہ کچھ برسوں میں نظرانداز کیا اور اُس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ ہمارے پاس بہت ٹیلنٹ ہے اور ہمیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ بات یا دلیل کہنے کی حد تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ حقیقت پسندی سے جائزہ لیں تو ماننا پڑے گا کہ پاکستان کو معیار کے اعتبار سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ دُنیا کی بڑی ٹیموں کے پاس ٹیسٹ کرکٹ ، ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی کے بہت اچھے کھلاڑی موجود ہیں لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے پاکستان کے پاس اچھے کھلاڑی کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ہمارے لیے 5 روزہ اور ایک روزہ کرکٹ میں مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ بہرحال ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ حل نہ ہو سکے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ ماننا پڑے گا کہ ہمیں مشکلات کا سامنا ہے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مشکلات کی وجہ طویل دورانیے کی کرکٹ سے دوری ہے۔ ان حالات میں تعمیری کام کرنے اور مستقل مزاجی کے ساتھ طویل المدتی منصوبوں کو اپنانا پڑے گا۔ اگر ہم مستقبل قریب میں دیکھتے ہیں تو پاکستان کو آئندہ برس ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کھیلنا ہے اور 2025ءمیں چیپمئنز ٹرافی کی میزبانی بھی کرنی ہے۔ ان دونوں ٹورنامنٹس کو ہدف بنا کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرے گا کون کیونکہ جس ادارے نے یہ کام کرنے ہیں وہاں تو سب کو اپنی اپنی پڑی ہے ، سب اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں ، اکثریتی افسران یا فیصلہ کرنے والوں کے لیے ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد اہم ہیں۔ جب کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو اپنے مستقبل کا عمل نہ ہو کہ کل اُس نے دفتر آنا ہے یا نہیں آنا ، کل وہ عہدے پر موجود ہو گا یا نہیں ہو گا تو وہ خاک کام کرے گا۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا اس وقت جو چیئرمین ہے اُس میں اتنی صلاحیت اور اہلیت ہے کہ وہ ملکی کرکٹ کے مسائل کو سمجھے ، انہیں حل کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرے اور پھر عملدرآمد کی طرف بھی بڑھے۔ چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف کے دور میں تو صرف تنازعات ہی سامنے آئے ہیں جو کام کرنے سے انہیں روکا گیا ہے وہ وہی کام کر رہے ہیں اور جو اُن کے کرنے کے کام ہیں اُن کاموں سے وہ بہت دور ہیں۔ 
آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز شان مسعود کہتے ہیں کہ ”بابر اعظم ہماری بیٹنگ کے لیڈر ہیں وہ ایک بہترین کھلاڑی ہیں اُن کے ساتھ اچھی انڈر سٹینڈنگ ہے۔ پاکستان کی کپتانی ایک اعزاز ہے لیکن یہ عارضی چیز ہے۔ کوشش ہے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اچھی کرکٹ کھیلیں۔ تنقید ہوتی ہے اور تعمیری تنقید کو ضرور دیکھوں گا جو اچھا نہیں ہو گا اُسے بہتر کرنے کی کوشش کی جائے گی اور نتائج کی ذمہ داری بھی لیں گے۔ ملتان سلطانز اور ڈربی شائر کی کپتانی سے تجربہ حاصل ہوا ہے۔“ 
پاکستان ٹیم آسٹریلیا پہنچ چکی ہے لیکن ملک میں آج بھی حارث رؤف کے انکار اور عماد وسیم کی اچانک ریٹائرمنٹ زیربحث ہے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی کہتے ہیں کہ ”حارث رؤف تو ٹیسٹ میچ کا باؤلر ہی نہیں ہے وہ ٹونٹی ٹونٹی سپیشلسٹ ہے اسے ون ڈے کرکٹ کھلانا بہت بڑی بات ہے۔ یہ حارث کو ٹیسٹ کرکٹ کھلانے چلے ہیں۔ فاسٹ باؤلر کے ساتھ زبردستی مناسب نہیں مجھے تو یوں لگتا ہے کہ حارث رؤف کو بگ بیش کے لیے این او سی نہیں ملے گا اور اسے سینٹرل کنٹریکٹ کے معاملے میں بھی مشکلات ہونگی کیونکہ اس معاملے میں محمد حفیظ اور وہاب ریاض ایک ہی رائے رکھتے ہیں موجودہ حالات میں جیت ان دونوں کی ہو گی لیکن نقصان پاکستان کرکٹ کا ہو گا۔ جہاں تک محمد عامر کو واپس لانے کی بات ہے محمد حفیظ نے یہ کہہ کر اپنے ہی مو¿قف کی نفی کی ہے۔ وہ کئی برس تک محمد عامر کی مخالفت کرتے رہے اور اب ٹیم کے ڈائریکٹر بنے ہیں تو سب سے پہلے محمد عامر کو فون کیا ہے۔ یعنی فاسٹ باؤلر کو اگر نجم سیٹھی ٹیم میں شامل کریں تو غلط بات ہے اور اگر محمد حفیظ ٹیم ڈائریکٹر بن کر محمد عامر کو کھلانا چاہیں تو وہ درست ہے اس دہرے معیار کی کیا دلیل ہو سکتی ہے۔ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ، کون لوگ ہیں جنہیں پاکستان ٹیم کے کوچنگ سٹاف میں شامل کیا گیا ہے اور جونیئر لیول پر کس کو کیسے لگایا جا رہا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ “
آل راؤنڈر عماد وسیم کی اچانک ریٹائرمنٹ بھی حیران کن ہے ، پاکستان کے بہترین کھلاڑی ایک ایک کر کے قبل ازوقت کھیل سے دور ہو رہے ہیں یا پھر اپنے آپ کو محدود کر رہے ہیں یہ حالات تشویشناک ہیں ہمیں متبادل کھلاڑیوں کے لیے بہتر حکمت عملی تیار کرنے اور کرکٹرز کی تعداد کو بڑھانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا اس کے ساتھ ساتھ لیگ کرکٹ کے لیے بھی بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانا اور اس کے لیے بروقت فیصلے کرنا کرکٹ بورڈ کی ذمہ دار ہے۔ ان حالات میں کہ جب پوری دنیا میں لیگ کرکٹ عروج پر ہے کھلاڑیوں کی تعداد میں اضافہ مسائل کم کر سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرے گا کون؟؟؟
کیا حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کرکٹ بورڈ کو ایسے ہی غیرسنجیدہ طور پر چلانا ہے۔ کیا ہم نے سکواش اور ہاکی کو تباہ ہوتے نہیں دیکھا، کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ پاکستان میں ہاکی اور سکواش کا اتنا بُرا حال ہو جائے گا، کیا ہم کرکٹ کا حال بھی ہاکی اور سکواش جیسا کرنا چاہتے ہیں ایک ہی کھیل پاکستان میں بچا ہے جو اس ملک کے لوگوں کو خوشیاں دیتا ہے اور اگر حکمرانوں نے اس کھیل کو بچانے کے لئے بروقت اور بہتر فیصلے نہ کئے تو پھر اس ملک کے نوجوان کرکٹرز حکمرانوں کو کبھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کریں گے کیا سیاسی تعلقات اور مفادات کرکٹ سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ اہمیت کس کی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن