محمد علی باب کی سرگرمیوں کی خبر بادشاہ کے دربار تک پہنچی تو اسے طلب کر لیا گیا۔ اس نے اپنی تعلیمات کے حق میں قرآنی آیات پیش کیں، سماوات کا تلفظ درست ادا نہ کر سکا۔ دربارمیں موجود علماءنے اس کا مضحکہ اڑایا تو باب نے کہا’ تم میرے روحانی مقامات کو نہیں جانتے۔ میری ادائیگی درست ہے تم غلط بولتے ہو۔ میں امام وقت ہوں، خدا نے میرے طفیل قرآن کی آیا ت کو اعراب سے آزاد کر دیا ہے۔ اب جس طرح جی میں آئے پڑھو، سب ٹھیک ہے۔‘ یہ خود کو خداتک پہنچنے کا دروازہ قرار دیتا تھا۔ اس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اسے مہدی موعود کے آنے کے لیے زمین کی تیاری کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اپنی غلطی کی پردہ پوشی کے لیے اس نے غلطی کو اپنی عظمت بنا لیا۔
علامہ اقبال نے محمدعلی باب کی ملامت پر چند اشعار لکھے۔ باب نے جو کہا اس کے پیرو کاروں نے مان لیا۔ اس کی تعلیمات میں شدت آنے پر اسے تبریز کے چوراہے میں گولی مار دی گئی تھی۔ اس کی سزاکا فیصلہ ایرانی بادشاہ ناصر الدین قاچار نے کیا۔ باب کی موت پر ترس اس لیے آتا ہے کہ اس کی موت کے وقت عمر صرف تیس سال تھی۔وہ تاریخ کی لوح پر اپنا نام درج کراگیا۔لوحِ تاریخ پر حسین ابنِ علی کا نام دمکتا ہے۔حسین علیہ السلام کے روسیاہ دشمن کانام بھی تاریکی بکھیرتاہے۔ محمد علی باب کی سب سے بڑی مبلغہ اورپیرو کار زرین زرتاج تھی جسے قراة العین طاہرہ کے القابات دیئے گئے۔ اسے بھی قاچار ہی نے قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس میں کچھ عمل دخل ناصر الدین قاچار کی بیکراں طبع تعیش کا بھی تھا۔ یہ حسن و جمال میں شہرہ رکھتی تھی۔ کمال کی شاعرہ تھی،اس کا کلاسیکی فارسی شاعری میں سب سے بلند نام ہے۔۔ قادر الکلامی میں اپنی مثال آپ، شعلے لپکاتی، سننے والے کو گرویدہ بنا دینے والی آواز تھی۔ اسے بھی دربار میں طلب کیاگیا۔ اس پر بغاوت، دین میں فتنہ پھیلانے اور خواتین کے حقوق پر باغیانہ سوالات اٹھانے کا الزام تھا۔ اس نے دربار میں حاضر ہو کر چند اشعار پڑھے۔
تو وملک و جاہ سکندری حسن و رسم و راہ قلندری
اگر آن نکوست، تو درخوری، اگر ایں بداست، مرا سزا
تیرے پا س ملک، جاہ اور بادشاہی ہے، اگر یہ بھلی ہے تو تجھے مبارک، میں ہوں کہ میرے اطوار قلندرانہ ہیں اگر یہ بدی ہے تو بدی قبول ہے۔ جاہ و جلال کے ماحول میں لپٹے دربار میں بیٹھے ہر شخص کی نظر وسماعت قراةالعین پر تھی۔ اس کے بولنے پر دربار کی خاموشی سناٹے اور سنسنی میں بدل گئی۔ بادشاہ ملزمہ کے حسن و جمال سے متاثر ہو رہا تھا۔ بے ساختہ جواب پر اس کی ذہانت کا قائل ہوگیا۔ دلائل کے حصار میں آرہا تھا۔ لمحہ بہ لمحہ پگھل رہا تھا۔ زریں کی شخصیت کی دلکشی کششِ بے خودی بن رہی تھی۔ بادشاہ کے دل کی دھڑکن منتشر ہو رہی تھی۔ بادشاہ منزل عشق کی راہ پر گامزن ہوا چاہتا تھا۔ ریاست باب کے قدموں میں زرین زرتاج کے دستِ سحر کے ذریعے لپٹتی نظر آ رہی تھی۔ بادشاہ کو خوف لاحق ہوا تھا کہ اس کی زلفوں کی تیرگی بادشاہ کے نامہ سیاہ میں شامل نہ ہو جائے۔معاً بادشاہ نے سر کو جھٹکا دیا۔ سوچا چند لمحے دربار میں یہ کیفیت رہی تو مبادا دلآویز دیوی کو دل دے بیٹھے، اسے جلد انجام سے دوچار کر دیا جائے۔ ایک لمحہ پہلے والی دل میں محبت کے بڑھتے جذبات کا جھرنا اگلے لمحے سفاکیت میں بدل گیا۔ دربار برخاست ہوا۔ درباری قراة العین کو گھوڑے کے پیچھے گھسٹتا دیکھ رہے تھے۔گھوڑے کے ساتھ اس کے بال باندھے گئے۔ جان کنی کے عالم میں جلا دیا گیا۔ باقیات کو باغِ ایلخانی میں لے جاکر باغِ نگارستان کے کنویں میں ڈال کر پتھروں سے پاٹ دیا گیا۔ پھر حالات کبھی موافق نہ ہوئے کہ اس کا مزار، مقبرہ یا خانقاہ بن سکتی۔اس کا نام بہرحال تاریخ کی لوح پر درج ہوگیا۔
قراة العین اپنے عقائد اور باغیانہ روش کے تحت سخت سزا کی مستوجب تو تھی۔ اس کے لیے انصاف کے تقاضے پورے کئے جا تے تو قاچار پر کبھی انگلی نہ اٹھتی۔ اس نے 48سال بادشاہت کی اور خود بھی جمال الدین افغانی کے ایک پیروکار کے ہاتھوں 1890ء میں مارا گیا۔ قراة العین اور محمد علی باب کو ایک ہی سال 1850ءمیں سزائے موت سے دوچار کیا گیا۔ کچھ مورخین کی رائے ہے کہ باب اور قراةالعین کو اصلاح کا موقع دیا جا سکتا تھا۔باب ایک بار راہِ راست پر آیا پھر بھٹک گیا۔اس نے صرف تیس جبکہ قراة العین نے 35سال عمر پائی۔
دنیا میں جب بھی کبھی انصاف کے تقاضوں کے ماورا فیصلے ہوئے، وہ فیصلہ سازوں کے ناموں کے ساتھ تاریخ میں زندہ رہے۔ ہماری بھی تاریخ ایسے تلخ فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ ان فیصلوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو تاریخ کی لوح کے اجلے صفحات پر متعصب، منتقم یا کمپرومائزڈ منصفوں کا نام حروفِ سیاہ میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ جو ناموافق حالات میں قانون کے مطابق فیصلے دیتے رہے، ان کے تذکرہ پر انصاف پسندوں کے سر خم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ مشکلیں کبھی آزمائش کے لیے بھی درپیش آتی ہیں۔مشکلات قبر میں ساتھ نہیں جاتیں۔ مراعات اور جاہ و حشمت بھی یہیں پڑی رہ جاتی ہے۔ ساتھ آپ کے اعمال جانے ہیں اور دنیا میں نام باقی رہ جانا ہے۔ حسین کا نام بھی ہے اور آپ کے دشمنوں کا بھی ہے۔
میجر(ر) عادل راجہ اور کیپٹن (ر) حیدر مہدی کو ان کے ”کمالات“ پر باالترتیب 14اور12سال قید بامشقت سنائی گئی ہے۔ دونوں ریاست کی سرِ دست دسترس سے باہر ہیں لہٰذا سزا کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ بے دلیل تاویلیں پیش کر رہے ہیں۔ جس فوج نے عزت دی، چلنے کا طریقہ ، بولنے کا سلیقہ سکھایا اسی پر طعن و طنز الزام اور دشنام۔آرمی چیف کی شخصیت اور پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس نے اس فوج کو چلانا ہے جسے بد ترین دشمن کا سامنا ہے۔ (جاری)