معزز قارئین !۔ دُنیا کے کئی ملکوں میں "Father`s Day" اور "Mother`s Day" منایا جاتا ہے۔ مَیں اس بارے میں کیا کہوں؟۔عربی زبان میں ماں اور باپ کو ”والدین “ کہتے ہیں ۔ انگریزی زبان میں ” والدین “ کو "Parents" کہا جاتا ہے ۔ مَیں دوسرے ملکوں کی بات نہیں کرتا، ہمارے والدین کسی بھی ملک میں ہُوں ، دارِ فانی میں ہُوں یا عالم جاودانی میں ،وہ تو، ہمہ وقت ہمارے دِلوں میں بستے ہیں ۔
” حاصل زندگی !“
مَیں نے روزنامہ ” سیاست “ لاہور کے ایڈیٹر اور مختلف قومی اخبارات (خاص طور پر نوائے وقت ) کے کالم نویس کی حیثیت سے ،پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ آدھی دُنیا کی سیر کی لیکن، میری زندگی کا حاصل یہ ہے کہ ” مجھے ”نوائے وقت “ کے کالم نویس کی حیثیت سے ، ستمبر 1991ءمیں، صدرِ پاکستان، غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے، اُن کے ساتھ خانہ¿ کعبہ کے اندر داخل ہونے کا شرف حاصل ہُوا۔ مجھے یقین ہے کہ ” اِس کا ثواب ” مفسرِ نظریہ¿ پاکستان“ جنابِ مجید نظامیؒ کو بھی ضرور ملا ہوگا؟“۔
”تحریک پاکستان/ قیام پاکستان!“
معزز قارئین!۔مَیں کئی بار اپنے کالم میں بیان کر چکا ہُوں کہ ” تحریکِ پاکستان کے دَوران ہندوستان کی دہشت گرد تنظیم ”آر۔ ایس۔ ایس“ (راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ) کی ذیلی تنظیموں اور سِکھوں نے 15 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا تھا۔ 10 لاکھ مسلمانوں کو ، تو صِرف مشرقی پنجاب میں شہید کِیا گیا تھا جہاں ،کی دو سِکھ ریاستوں ”نابھہ“ اور ”پٹیالہ“ کے علاوہ ضلع امرتسر میں سِکھوں نے میرے خاندان کے 26 افراد کو شہید کردِیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میرے والدین صاحب ، تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) رانا فضل محمد چوہان ؒکی سربراہی میں پاک ، پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہوگیا تھا۔ مَیں اپنے کئی کالموں میں اپنے والد صاحب کی زندگی کا تذکرہ کر چکاہُوں ۔
” 3 دسمبر 1991ء“
معزز قارئین !3 دسمبر ، کو میری والدہ¿ محترمہ کی 32 ویں برسی ہے ۔ 3 دسمبر 1991ءکو، میری والدہ¿ محترمہ ، بشیر بی بی کا 70 سال کی عُمر میں انتقال ہُوااور وہ میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک ہُوئی تھیں ۔ آٹھ بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں ، 38 پوتے، پوتیوں اور نواسے ، نواسیوں کی دادی اور نانی کو جب ہم نے لحد میں اُتارا تو میرے 82 سالہ والد صاحب پتھرائی ہُوئی آنکھوں سے اپنی زندگی کے ساتھی کو نئی زندگی کے لئے عازمِ سفر دیکھ رہے تھے ۔ مرحومہ کو اُن کی خواہش اور وصیت کے مطابق دونوں ہاتھوں میں سُرخ چوڑیاں پہنائی گئی تھیں اور سر پر سُرخ رنگ کا دوپٹّہ اوڑھایا گیا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ ” جو عورت اپنے خاوند کی زندگی ہی میں انتقال کر جائے وہ سدا سُہاگن ہوتی ہے اور یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے ۔ لہٰذا مرنے والوں کو خوشی خوشی مالکِ حقیقی کے حضور حاضری دینا چاہیے ۔ “
” چہروں کی شناخت کا شعور ! “
مَیں بھائی/ بہنوں میں سب سے بڑا ہُوں اور جب، مجھے چہروں کی شناخت کا شعور ہُوا تو، مجھے میری والدہ¿ محترمہ کے بارے بتایا گیا کہ ” یہ بی بی جی ہیں ۔ میرے چچا ، پھوپھیاں ، میری والدہ کو بی بی جی کہا کرتی تھیں اور میری دادی اماّں کو ” اماّں “ ۔میرے والد صاحب اور بی بی جی سرگوددھا میں رہتے تھے کبھی وہ لاہور آ جاتے تھے اور کبھی مَیں اور میرے بھائی بہن سرگودھا جاتے تھے ۔ اکتوبر 1991ءمیں میرے والد صاحب ، بی بی جی کو علاج کے لئے سرگودھا سے لاہور لائے ، میرے چھوٹے بھائی محمد علی چوہان اور اُس کی اہلیہ ( میری پھوپھی زاد)رشیدہ علی سے اُنہیں بہت محبت تھی ، وہ اُن کے گھر مقیم رہے ۔ روزنامہ ” سیاست “ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے میرا دفتر اسلام آباد ، ملتان ، لاہور میں تھا۔ بی بی جی کی تیمارداری پر مَیں اور میرے سبھی بھائی ، محمد اقبال چوہان ، مبارک علی چوہان، لیاقت علی چوہان، شوکت علی چوہان، محمد علی چوہان، محمد سلیم چوہان اور محمد کلیم چوہان اور ہماری بہنیں مصروف رہیں ۔ اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں مجھے بی بی جی نے کہا تھا کہ ” تُم بڑے ہو ، میری موت پر تُم نہ رونا اور چھوٹے بھائی ، بہنوں کو تسلی دینا۔
” بابِ پاکستان ! “
انتقال سے کچھ دِن پہلے بی بی جی کی فرمائش پر میرے تین بھائی شوکت علی چوہان، محمد علی چوہان اور محمد سلیم چوہان ”بابِ پاکستان “ دیکھنے گئے ۔ دراصل ہجرت کے بعد ہمارا خاندان تین دِن تک "Walton Camp"رہا ۔ بی بی جی شاید اُس دَور کی یاد تازہ کرنا چاہتی ہوں گی۔ اُن دِنوں میرے دو چھوٹے بھائی جاوید اقبال چوہان اور مبارک علی چوہان گم ہوگئے تھے اور وہ دو دِن بعد ملے تھے ۔ معزز قارئین !۔ پھر کیا ہوا؟۔”اللہ لوک“ کی حیثیت سے جاوید اقبال چوہان نے کیا کچھ کیا؟۔ 26 اگست 2006( یکم شعبان 1427ھ ) کو 63 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملا ، افسوس کہ ”اُس وقت مَیں نیو یارک ( امریکہ) میں تھا !“ ۔
” قائداعظم اور مادرِ ملّت؟ “
بی بی جی سیاسی خاتون نہیں تھیں لیکن، جن دِنوں مَیں ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم )کی محبت میں گرفتارتھا، تو ، وہ مجھے سمجھایا کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں ” لیڈر ایسا ہونا چاہیے،جیسے قائداعظم محمد علی جناح اور ” مادرِ ملّت “ محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ معزز قارئین ! ۔ لیکن ، جب بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی تو بی بی جی کو اچانک ” بے نظیر بھٹو سے ہمدردی ہوگئی اور مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ ” تُم اُن کی بیوہ اور بیٹی کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہو؟“۔
” تذکرہ¿ جنابِ مجید نظامی! “
4 دسمبر 1991ءکو برادرِ عزز سیّد شاہد رشید ( اب مرحوم) جنابِ مجید نظامی کو اپنے ساتھ لے کر میرے گھر تشریف لائے،10 دسمبر کو مَیں جنابِ مجید نظامی کے دفتر گیا تو، وہاں نامور صحافی (میرے دوست ) میر جمیل اُلرحمن ( اب مرحوم) بھی موجود تھے ۔ جنابِ مجید نظامی نے گلے لگایا اور اور مِیر صاحب نے بھی ۔ تعزیت کے بعد جنابِ مجید نظامی نے کہا کہ ” اثر چوہان جی !۔ مَیں تُہاڈا کالم پڑھیا تے ، مَینوں اپنی ماں جی دِی بوہت یاد آئی!“ ۔ مَیں نے عرض کِیا کہ ”محترم نظامی جی ساڈے دیس پاکستان دِیاں ساریاں دیسی مانواں اِکّوں جہیّاں ہوندیاں نَیں! “ اِس پر برادرِ محترم میرجمیل اُلرحمن بھی آبدیدہ ہوگئے۔
(جاری ہے )