190 ملین پاونڈ سکینڈل: عمران، بشریٰ دیگر 6 افراد کیخلاف ریفرنس

اسلام آباد (وقائع نگار+ نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) نےب نے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف 190 ملین پاو¿نڈ سکینڈل کا ریفرنس دائر کردیا۔ احتساب عدالت اسلام آباد میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف 190 ملین پاو¿نڈ سکینڈل میں ریفرنس دائر کیا گیا۔ نیب راولپنڈی کی جانب سے دائر ریفرنس میں چیئرمین پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی، فرح گوگی، شہزاد اکبر، بیرسٹر ضیاءالمصطفیٰ نذیر اور ذلفی بخاری سمیت 8 ملزموں کے نام شامل ہیں۔ جن کے وارنٹ بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل مظفر عباسی نے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم کے ہمراہ ریفرنس دائر کیا اور احتساب عدالت کے رجسٹرار آفس نے ریفرنس کی جانچ پڑتال کی۔ رواں سال 20 اپریل کو نیب نے تحقیقات کے مرحلے کو تفتیشی عمل میں تبدیل کیا۔ 2 دسمبر 2019 کو شہزاد اکبر نے چیئرمین پی ٹی آئی کو نوٹ دیا۔ نوٹ کے مطابق نیشنل کرائم ایجنسی کی درخواست پر برطانیہ کے مجسٹریٹ نے اکاو¿نٹ فریز کرنے کا حکم جاری کیا، اکاو¿نٹ فریز کرنے کا حکم 20 ملین پاو¿نڈ کی پراپرٹی کے حوالے سے تھا، این سی اے نے 170ملین پاو¿نڈ کے مزید اکاو¿نٹ فریز آرڈر حاصل کیے، برطانیہ میں اس پراپرٹی کی کل مالیت 190 ملین پاو¿نڈ تھی۔ اپریل 2019 میں چیئرمین پی ٹی آئی کو غیر قانونی فائدہ دیا گیا۔ القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کی مد میں ذلفی بخاری کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی کو 458 کنال زمین ملی۔ القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور ٹرسٹی بشریٰ بی بی تھیں۔ تفتیش سے معلوم ہوا جب چیئرمین پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا گیا تو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کا وجود نہیں تھا، پیسوں کی غیر قانونی منتقلی کے پیچھے غلط مقاصد تھے جس میں چیئرمین پی ٹی آئی ملوث تھے۔ برطانیہ میں ضبط شدہ پراپرٹی ریاست پاکستان کی تھی، غلط عکاسی کی گئی کہ سپریم کورٹ میں اکاو¿نٹ ریاست پاکستان کے مفاد کے لیے چلایا جا رہا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے نوٹ ان کیمرا کابینہ کے سامنے رکھا جس کو دسمبر 2019 میں کابینہ نے منظور کیا، پیسوں کی منتقلی سے متعلق شہزاد اکبر اور چیئرمین پی ٹی آئی نے چھپ کر بے ایمانی کا سہارا لیا۔ شہزاد اکبر، چیئرمین پی ٹی آئی نے حکومت پاکستان کی جانب سے ڈیڈ آف کانفیڈینشلٹی نیشنل کرائم ایجنسی میں جمع کروائی۔ 458کنال زمین ذلفی بخاری کو اپریل 2019 میں ٹرانفسر کی گئی۔ ذلفی بخاری کو ٹرانسفر کی گئی زمین بعد میں القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کو ٹرانسفر کی گئی۔ القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کو 28 کروڑ 50 لاکھ روپے بھی منتقل کیے گئے۔ یونیورسٹی کی تعمیر کی مالیت 28 کروڑ 40 لاکھ روپے لگائی گئی، دیگر قیمتی سامان بھی دیا گیا۔ نےب ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ ضیاءالمصطفیٰ، شہزاد اکبر نے متعدد بار برطانیہ کے دورے کیے، نیشنل کرائم ایجنسی سے معاملات طے کیے، ذلفی بخاری نے بطور چیئرمین پی ٹی آئی کے فرنٹ مین کا کردار ادا کیا۔ بشریٰ بی بی نے اپنے شوہر چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر غیر قانونی عمل کیا، بشریٰ بی بی نے اہلیہ ہونے کے ناطے مالی فوائد حاصل کیے، بشریٰ بی بی نے ایکنالجمنٹ آف ڈونیشن پر دستخط کیے، غیر قانونی عمل میں کردار ادا کیا۔ فرح گوگی چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی فرنٹ وومن تھیں، فرح گوگی کو جنوری2022 میں القادر ٹرسٹ کا ٹرسٹی بنایا گیا، بشریٰ بی بی کے ساتھ منسلک تھیں، ٹرسٹی بننے کے فوراً بعد 240 کنال زمین فرح گوگی کے نام ٹرانفسر کی گئی۔ دوسری جانب آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں وزارت قانون کی جانب سے اڈیالہ جیل میں سماعت کا نوٹیفکیشن موصول ہوجانے پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے پروڈکشن آرڈر کی درخواست پر سماعت بھی آج تک کیلئے ملتوی کردی۔ شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو، چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں اور دیگر بھی کمرہ عدالت موجود تھے۔ بیرسٹر تیمور ملک نے کہاکہ سلمان صفدر ایڈووکیٹ راستے میں ہیں۔ چیئرمین اور شاہ محمود قریشی کی عدالت پیشی پر دلائل ہوئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو خدشات ہیں لیکن شاہ محمود قریشی کو نہیں۔ رات تک علم نہ تھا عدالت کہاں لگے گی، عدالت جہاں بھی لگے ان کو پیش تو کرنا تھا۔ جج نے استفسار کیاکہ آپ نے عدالت کا آرڈر پڑھا تھا کیا، پورا آرڈر پڑھیں۔ عدالت کی ہدایت پر بیرسٹر تیمور ملک نے عدالت کا آرڈر پڑھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ نوٹیفکیشن آیا ہے یا نہیں؟۔ جس پر عدالتی عملہ نے بتایا کہ ابھی جیل سماعت کا نوٹیفکیشن نہیں آیا۔ عدالت نے وکلاءسے کہا کہ نوٹیفکیشن آتا ہے تب تک انتطار میں رکھتے ہیں۔ بیرسٹر تیمور ملک نے کہا کہ عدالت سے ایک گزارش ہے کہ اس روز چیئرمین پی ٹی آئی کی حد تک دلائل ہوئے۔ ہماری گزارش تھی کہ شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کیا جائے۔ اگر نو بجے عدالت لگنی تھی تو چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو پیش تو کرنا تھا۔ آپ ہماری گزارشات اپنے آرڈر میں لکھ دیتے تاکہ ہم اس حوالے سے دیکھ لیتے۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ابھی نوٹیفکیشن آجاتا ہے تو اس کو دیکھ لیتے ہیں۔ آج آگیا تو ٹھیک ہے وگرنہ ملزموں کو پیش کرنے کا حکم دیں گے۔ سکندر ذوالقرنین سلیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ نے پہلے آرڈر دیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو پیش کیا جائے، بعد میں اگلی سماعت پر آپ نے خود ہی اپنے آرڈر کی نظر ثانی کردی جو نہیں کر سکتے تھے، آپ کا آرڈر جیل ٹرائل کے حوالے سے قانونی طور پر درست نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ نوٹیفکیشن آ جائے تو ہم دیکھ لیتے ہیں۔ نوٹیفکیشن نہیں آیا تو ہم پروڈکشن آرڈر کروا دیں گے۔ وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم نے کہاکہ عدالت کا 23 نومبر کا ملزمان کی پروڈکشن آرڈر تھا، پھر عدالت نے اپنا ہی آرڈر پر نظر ثانی کردی۔ جج نے کہاکہ آپ 28 نومبر کا آرڈر پڑھیں آپ کی تمام باتوں کا جواب مل جائے گا۔ جس پر وکیل نے کہاکہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے گزشتہ سماعت پر عدالت کو خط بھیجا۔ عدالت نے استفسار کیاکہ کیا تھریٹ کے حوالے سے دیکھنا ہمارا اختیار ہے؟۔ وکیل نے کہا کہ اگر کوئی ایڈیشنل آئی جی کہہ دے تو کافی نہیں بلکہ اس سے منسلک رپورٹس بھی ہونی چاہئیں۔ عدالت کے جج نے کہاکہ اس کے ساتھ رپورٹس بھی منسلک ہیں۔ جس پر وکیل نے کہا کہ جیل میں لکھا ہے یہ ممنوعہ جگہ ہے موبائل استعمال نہیں کر سکتے۔ عدالت نے کہا کہ میڈیا کے سکلز بہت زیادہ ہیں ان کی موجودگی ضروری ہو گی۔ وکیل نے کہا کہ آپ کو نوٹیفکیشن میں عدالت ڈیکلیئر کرنے کے ساتھ اس کو غیر ممنوعہ علاقہ بھی ڈیکلیئر کرنا پڑے گا۔ عدالت کے جج نے کہا کہ بالکل ہو گا اور میڈیا کی موجودگی بھی ہو گی۔ وکیل علی بخاری نے کہا کہ آپ کا آرڈر مکمل نہیں ہے کیونکہ یہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے خاموش ہے، اس آرڈر میں وجوہات کا ذکر موجود نہیں کیوں جیل سماعت کی جارہی ہے، وزارت قانون نے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، خصوصی عدالت ہائیکورٹ کے احکامات کی پابند ہے، شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کرنے کی ذمہ داری سکیورٹی کی ہے، فرد جرم، نقول کی تقسیم سب کچھ ملزم کی موجودگی میں ہونا چاہیے۔ عدالت کے جج نے کہاکہ تمام چیزوں کو سکیورٹی کے ساتھ دیکھنا ہے۔ وکیل علی بخاری نے کہاکہ عدالت کا گزشتہ حکم نامہ جامع نہیں ہے۔ شریک ملزم شاہ محمود کی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی چیز جیل انتظامیہ نے نہیں بتائی، نہ ہی جیل انتظامیہ نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کیا جاسکتا ہے یا نہیں، عدالت نے بھی گزشتہ فیصلے میں شاہ محمود قریشی کے حوالے سے صرف ایک لائن لکھی، شاہ محمود قریشی کے حوالے سے صرف یہ کہا گیا کہ ان کا ٹرائل بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ہو گا، شریک ملزم شاہ محمود قریشی کے حوالے سے کوئی ایک ڈاکومنٹ بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکا، ای کورٹ کے ذریعے ہی عدالت میں ملزمان کی حاضری کروا دی جاتی، عدالت شورٹی بانڈ لے اور شاہ محمود قریشی کو رہا کرے، شاہ محمود قریشی جانیں اور ان کی سکیورٹی جانیں، نقول کی فراہمی اور چارج فریم ملزم کے بغیر تو ہو نہیں سکتا، باہر بھی عدالت لگا لیں ہم حاضر ہیں مگر ملزمان کو پیش نہیں کیا جاسکا، اس وقت میں ابھی تک کوئی نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، آج شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کیا جانا چاہیے تھا، کیا انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہم انتطار کرتے رہیں، آپ لکھ دیں نوٹیفکیشن نہیں آیا، نقل تقسیم ہونا فرد جرم ملزم کی موجودگی کے بغیر تو نہیں ہو گا۔ سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے وکیل علی بخاری سے کہا کہ شاہ صاحب بس کریں۔ جس پر عدالت کے جج نے سپیشل پراسیکیوٹر سے کہا کہ نہیں نہیں ان کو مزید بولنے دیں۔ علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں تو زیادہ بولتا بھی نہیں۔ عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ آپ بولتے نہیں آدھا گھنٹہ بولتے ہیں۔ جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہاکہ عدالت نے طے کیا ہے کہ اب جیل ٹرائل ہو گا، اگر آج نوٹیفکیشن پیش نہیں کیا جاتا تو عدالت ملزمان کو عدالت طلب کرے گی، چونکہ مرکزی ملزم کا ٹرائل ہو رہا ہے شریک ملزم ان کے ساتھ ہی رہیں گے، جیل کارروائی کو نوٹیفکیشنز کی وجہ سے کالعدم کیا گیا پروسیڈنگز کی وجہ سے نہیں کیا گیا۔ اس موقع پر شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہاکہ کیس کی آئندہ تاریخ 8 فروری کے بعد کی دے دیں، شاید پراسیکیوشن کیس واپس لینے آجائے اور الیکشن بھی ہوجائیں گے۔ عدالت نے استفسار کیاکہ 8 فروری 2025 کی تاریخ دوں کیا؟۔ جس پر شاہین ایڈووکیٹ نے کہاکہ نہیں8 فروری2024 کی تاریخ الیکشن کے بعد کی، جس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے مسکراتے ہوئے کہاکہ چلیں دیکھ لیتے ہیں۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں روسٹرم پر آگئیں۔ علیمہ خان نے عدالت کے جج سے کہاکہ جج صاحب نوٹیفکیشن کب آئے گا؟، جس پر عدالت کے جج نے کہاکہ وزارت قانون کا نوٹیفکیشن اگر نہیں تو آیا تو میں منگوا لوں گا۔ علیمہ خان نے کہاکہ ہم کمرہ عدالت کے ساتھ ہی بیٹھ جاتے ہیں، نوٹیفکیشن کا انتظار کرتے ہیں۔ دوران سماعت پی ٹی آئی وکلاءکی جانب سے جیل ٹرائل کے حکم نامے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔ وقفہ کے بعد سماعت شروع ہونے پر عدالت نے کہاکہ نوٹیفکیشن آگیا ہے، اس کیس کو کل کیلئے رکھ لیتے ہیں۔ وکلاءنے کہاکہ کل کیسے مینیج ہوگا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ ہائیکورٹ احکامات بھی ہیں، کل حاضری لگا لیں گے۔ علی بخاری ایڈووکیٹ کی استدعا پر عدالتی عملہ نے نوٹیفکیشن پڑھا۔ عدالت کے جج نے کہاکہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے بھی نوٹیفکیشن میں تحریر کیا گیاہے، درخواست نمٹا دی ہے۔ اس موقع پر وکیل نے کہا کہ ابھی تو اس پر دلائل بھی نہیں ہوئے۔ عدالت نے کہاکہ کل جیل میں دے دینا پھر، ان کی پروڈکشن کا مسئلہ ہے، کل اگلی تاریخ دے دیں گے۔ اس موقع پر وکلاء نے کہاکہ کچھ وکلاء لاہور سے آئے ہوئے، ہماری بھی دیگر کیسز میں تاریخیں ہوتی ہیں۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ آج کی کرلیں حاضری ہی لگانی ہے، میں تو آج ہی اڈیالہ جیل میں سماعت مقرر کرنے کے حق میں ہوں۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہاکہ میں نے اطلاع دینی ہے دوسرے اقدامات ہونے ہیں آج ہی کیسے کریں، نوٹیفکیشن کے بغیر بھی کیسے جاسکتا ہوں۔ وکلاء نے کہاکہ اگلے ہفتے کیلئے رکھ لیں۔ علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہاکہ کبھی نہیں کہتے تاخیر کریں، لمبی تاریخیں رکھیں، ہفتے کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ بند ہوتی لیکن ٹرائل کورٹس میں ہمارے کیسز ہوتے، ہفتہ اور پیر کے روز ہمارے لیے اہم ہوتے ہیں،5 دسمبر رکھ لیں۔ پی ٹی آئی وکلاءکی جانب سے 5 دسمبر تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا پر عدالت کے جج نے کہا کہ5 دسمبر کو سماعت رکھ لیں گے لیکن حاضری کے حوالے سے تو سماعت رکھنی ہے نا۔ وکیل نے کہاکہ آج چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری مقرر تھی، اس بات پر کیا کہیں گے؟۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو اطلاع کرنی تھی اور وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کا انتظار تھا آج۔ وکیل نے کہاکہ ہم انتظار کر لیتے ہیں، آپ آج ملزمان کو جوڈیشل کمپلیکس پیش کروا دیں۔ سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہاکہ چاہتے کیا ہیں؟ ڈیڑھ گھنٹے سے یہی باتیں کر رہے ہیں۔ علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہاکہ کوئی سٹے نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ اسلام ہائیکورٹ اور نہ آپ نے اپنا آرڈر عملدرآمد کروایا، انٹراکورٹ اپیل پر حکم کے خلاف سپریم کورٹ جانا پڑتا ہے۔ عدالت نے سائفر کیس کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے پرڈکشن آرڈر سے متعلق درخواست پر بھی سماعت ملتوی کردی۔ سائفر کیس کی سماعت آج اڈیالہ جیل میں ہوگی۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کردیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو آج عدالت پیش نہیں کیا گیا، گزشتہ سماعت پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے ملزموں کی پیشی کے حوالے سے سکیورٹی رپورٹ جمع کروائی، عدالت نے چیف کمشنر آفس اسلام آباد، سپرنٹنڈنٹ جیل کو جیل ٹرائل کے حوالے سے انتظامات کرنے کے لیے خط لکھا، وزارت قانون، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے خط کا جواب عدالت میں جمع کروا دیا، 28 نومبر کے آرڈر کے کی روشنی میں سائفرکیس کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہوگا، چیئرمین پی ٹی آئی کی عدالت پروڈکشن سے متعلق درخواست پر نوٹس جاری کئے جاتے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈائریکشن دی ہے کہ سائفرکیس کا ٹرائل 4 ہفتوں میں مکمل کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن