اسلام آباد پر چڑھائی اور جوابی کارروائی

Dec 02, 2024

نصرت جاوید

میری ڈھیٹ ہڈی غیروںکے طعنے سننے کی عادی ہوچکی ہے۔عزیز از جان صحافی دوست بھی لیکن جب یہ سوچنا شروع ہوجائیں کہ پیمرا کے لائسنس کے ذریعے چلائے ٹی وی چینل اور حکومت سے ملے ڈیکلریشن کی بدولت چھاپے اخبار میں سچ بتاناممکن ہی نہیں تو دل گھبرا جاتا ہے۔ بات قواعد وضوابط کی لگام میں بندھے میڈیا کی محدودات تک محدود رہتی تو نظر انداز کردی جاتی۔ پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ برسوں سے آپ کو پوری طرح جاننے کے باوجود آپ کے چند صحافی دوست اب یہ سوچنا شروع ہوگئے ہیں کہ نوکری بچانے کی خاطر سچ بیان نہیں ہورہا۔ فدویانہ انداز میں وہ ’بیانیہ‘ فروغ دیا جارہا ہے جو سرکار تحریک انصاف کو کمزور کرنے کی خاطر پھیلانا چاہ رہی ہے۔
اپریل 2022ء میں عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد فروری 2024ء کے انتخاب سے قبل اور بعد میں جو حکومتی بندوبست تشکیل ہوا میری دانست میں عوامی خواہشات نظرانداز کرتے ہوئے بھان متی کا کنبہ کھڑا کرنے کے مترادف تھا۔ یہ کہنے کے بعد مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ وطن عزیز کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہونے کے باوجود تحریک انصاف اس بندوبست کا دھڑم تختہ کرنے میں ناکام کیوں ہورہی ہے؟ اسلام آباد پر تقریباً ہر دوسرے مہینے خیبرپختونخوا کے سرکاری وسائل سے لیس ہوئے لشکر کے ذریعے ہوئی یلغار حکومتی بندوبست کو کمزور تر کرنے کے بجائے توانا تر بنارہی ہے۔ اپنی بات ثابت کرنے کو چند دلائل پیش کریں۔ کچھ سوالات اٹھائیں تو چند عزیز از جان دوست ناراض ہوجاتے ہیں۔
گزرے ہفتے کی 24تاریخ سے ایک بار پھر خیبرپخونخوا سے آئے لشکر نے اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کی۔ اب کی بار اس کی قیادت براہ راست عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہاتھ گئی نظر آئی۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ان کے معاون ہی محسوس ہوئے۔ ’کارروانِ انقلاب‘ کی پشاور سے روانگی سے قبل ہی حکومت پنجاب نے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کی اہم شاہرائوں کو ’سالانہ مرمت‘ کے نام پر بند کردیا۔ رحیم یار خان سے اٹک تک پہیہ جام ہوا نظر آیا۔ ’پہیہ جام‘ کی اصطلاح ہمارے ہاں 1977ء میں بھٹو مخالف تحریک کے دوران منظر عام پر آئی تھی۔ سنا ہے کہ ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کی نقل وحرکت ناممکن بنانے کا یہ ہتھکنڈا سب سے پہلے چلی کے مقبول صدر آلندے کی حکومت کا تختہ الٹانے کے لیے استعمال ہوا تھا۔ جون 1977ء میں بھٹو حکومت کے خلاف استعمال ہوا تو جنرل ضیاء کا 4جولائی 1977ء والا مارشل لاء لگوانے میں مدد کار ثابت ہوا۔ ہمارے ہاں 24نومبر کی ’فائنل کال‘ ناکام بنانے کے لیے پنجاب حکومت اپنے ہی صوبے میں پہیہ جام کرتی نہایت مضحکہ خیز نظر آئی۔ 
رواں برس کے اکتوبر کی پہلی تاریخ بھی پشاور سے تحریک انصاف کا ایک لشکر اسلام آباد داخلے کے لیے آیا تھا۔ وفاقی حکومت سے جائز وناجائز وجوہات کی بنا پر نفرت سے مغلوب ہوئے افراد اس حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ تحریک انصاف کا پشاور سے آیا لشکر ایک سیاسی جماعت کا ’پرامن احتجاجی مارچ‘ نہیں ہوتا۔ سرکاری وسائل کی بدولت وہ ’منتخب وزیر اعلیٰ‘ کے تحفظ کے لیے لازمی سازوسامان سے بھی لیس ہوتا ہے۔ اسے روکنے کے لیے آنسو گیس استعمال ہو تو اس کا توڑ بھی لشکر ہی میں موجود ہوتا ہے۔ پشاور سے چلا لشکر اٹک پار کر جائے کہ وفاق پاکستان کی ایک اکائی دوسرے صوبے کی حد میں داخل ہوکر ایسے مناظر اجاگر کرتی ہے جو متحارب ممالک کے مابین ’جھڑپوں‘ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کی قیادت نے پشاور سے چلے قافلے کو نفسیاتی وجذباتی اعتبار سے مزید تقویت پہنچائی۔ وفاق اور پنجاب حکومت کی تمام تر تیاریوں کے باوجود خیبرپختونخوا سے آیا کاررواں اسلام آباد میں داخل ہوگیا۔ حکومتی اہل کاروں کے اس کی وجہ سے اوسان خطا ہوگئے۔
قواعد وضوابط کی لگام میں چلایا روایتی میڈیا قارئین وناظرین کو سمجھاہی نہیں پایا کہ محض ’عوام کا اجتماع اور جذبہ‘ ہی ان کی راہ میں آئی رکاوٹوں کو روندنے کے قابل نہیں تھا۔ ’کارروان انقلاب‘ کو ہر صورت اسلام آباد تک پہنچانے کے لیے جنگی حربے استعمال ہوئے۔ ایک فریق کی جانب سے ایسے حربے استعمال ہونے کے کے بعد دوسرے فریق سے یہ توقع باندھنا غیر منطقی تھا کہ وہ ’پرامن احتجاج‘ کی اسلام آباد آمد کو ایک تھپڑ کھانے کے بعد دوسرا گال آگے کرتے ہوئے برداشت کرلے گا۔ تخت یا تختہ کے لیے ہوئے معرکوں میں ایسے نہیں ہوتا۔ ادلے کے بدلے والی روش اختیار کی جاتی ہے اور ایسے معرکوں کے دوران عام شہری بے بس ولاچار تماشائی ہوتے ہیں۔
پرانی وضع کا عاجز صحافی ہوتے ہوئے دیانتداری سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر ہم پشاور سے چلے کاررواں کو سیلف سنسر شپ یا کسی کے حکم پر نظرانداز نہ کررہے ہوتے تو عوام کو سمجھانا بہت آسان ہوجاتا کہ اسلام آباد میں داخلے کے بعد وفاقی حکومت اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے پسپا ہونے کو مجبور کردے گی۔ بالآخر ایسے ہی ہوا۔ رات کے اندھیرے میں 75گھنٹوں سے مسلسل سفر کرتے اور وفاق اور پنجاب حکومت کی مزاحمت میں مصروف کارکن جب ڈی چوک سے کچھ فاصلے پر موجود خیبرپلازہ تک پہنچے تو بہت تھک چکے تھے۔ ان کی اکثریت اس گماں میں رہی کہ شاید بشریٰ بی بی فجر کی نماز کے بعد ڈی چوک پر آخری دھاوا بولنے کا حکم صادر کریں گی۔ یہ فرض کرتے ہوئے وہ ہجوم سے کٹ کر کھانے پینے کی اشیاء ڈھونڈنے لگے۔ سینکڑوں افراد فٹ پاتھوں اور گھاس کے قطعوں میں لیٹ کر تھکن بھی دور کرتے رہے۔ جذباتی کارکنوں کا ایک گروہ مگر علی امین اور بشریٰ بی بی کی گاڑیوں کو گھیرے ہوئے اس امر کو مصر رہا کہ فی الفور ڈی چوک کا رخ کیا جائے۔ ان دونوں کو مگر خبر پہنچادی گئی تھی کہ حکومت بتیاں بجھانے کے بعد آخری حملے کے لیے پولیس اور رینجرز کے تازہ دم دستوں کے ساتھ تیار ہوچکی ہے۔ بشریٰ بی بی ا ور وزیر اعلیٰ کو ’محفوظ راستہ‘ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔ وہ دونوں وہاں سے کھسک لیے اور آنسو گیس کی بوچھاڑ، مسلسل ہوائی فائرنگ اور بسااوقات ربڑبلٹس کے براہ راست استعمال سے ہجوم کو منتشر کردیا گیا۔ وفاقی حکومت کی ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے اپنائی حکمت عملی نہایت جارحانہ تھی۔ اس پر سوال اٹھانا لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مگر تحریک انصاف کی پسپائی بھی زیر بحث لانا پڑتی ہے۔ اسے مگر زیر بحث لائو تو دوست ناراض ہوجاتے ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم اب ناقابل برداشت ہونا شروع ہوگئی ہے۔ قریب ترین دوست بھی آپ کی نیت پر سوال اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔

مزیدخبریں