قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی قیادت و بصیرت سے آزاد ہونے والے ملک پاکستان میں پہلے دو عشرے غیر سیاسی لوگ ہی حکومت کرتے رہے۔ اس دور کے حکمرانوں نے طاقت کے زور اقتدار تو حاصل کرلیا لیکن ان کے غیر سیاسی رویوں،آمرانہ سوچ اور عوامی رائے کو دبانے کا نتیجہ ملک کے دو لخت ہونے کی صورت سامنے آیا۔ جبر کے خاتمے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی ترجمانی کا جھنڈا بلند کیا۔ 30 نومبر1967 کوپاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔جس نے اپنے قیام کے وقت عوامی حقوق، مساوات، سماجی انصاف، اور جمہوریت کے فروغ کو اپنا مقصد قرار دیا۔ پارٹی کا نعرہ ’’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، مساوات ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ اس کے نظریے کی عکاسی کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی حکومت نے مزدوروں، کسانوں، اور محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے قانون سازی کی۔پھر سب کے لیے روٹی،کپڑا اور مکان کے نعرے سے بہت کم وقت میں جماعت کووہ مقبولیت حاصل کی جو آج تک کی پاکستانی سیاست میں کسی اور شخصیت اور جماعت کو نصیب نہیں ہو سکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف ایک بہترین مقرر تھے،عوام کے نبض شناس تھے بلکہ وہ عالمی سیاست اور مسلمانوں کے اتحاد کے حوالے سے بھی بہت پرجوش تھے۔ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس اس کی زندہ مثال ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ہی دور حکومت میں 1973 کا آئین تشکیل دیا گیا، جو آج بھی پاکستان کا بنیادی آئین ہے۔ عالمی طاقتوں کے ایما پرذوالفقار علی بھٹو کو ہمارے نظام نے پھانسی کے کٹہرے تک پہنچادیا،لیکن بھٹو کا فلسفہ امر ہوگیا کہ لوگوں کو بھٹو سے دیوانہ وار عشق ہوگیا۔ جنرل ضیا نوے دن میں الیکشن کا وعدہ کرکے تخت نشیں ہوئے تھے، اپنے دور میں سیاسی قیادت پر ہر طرح کی سختیاں کیں بلکہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں کمزور کرنے کے لیے ضیا صاحب کی مہربانیوں سے مہاجر قوم پرستوں کی جماعت کو مضبوط کیا گیا۔ سیاسی شعور نہ رکھنے والا آمر ضیا الحق گیارہ سال تک صدر اور آرمی چیف جیسے عہدوں پر براجمان رہا۔اور ملک کو نشے اور اسلحے کی بڑی مارکیٹ بنا گیا۔
پاکستانی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی کا کردار نمایاں اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے فروغ اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف تحریک میں پیپلز پارٹی کے کارکنان اور قیادت نے بڑی قربانیاں دیں۔۔ضیا کی موت کے بعد بھٹو کی بیٹی بے نظیر ملک واپس آئیں تو لوگوں نے ان کا پر تپاک استقبال کیا۔ ایسا لگا رہا تھا کہ ایک بار پھر ملک بھر کے لوگوں کو اپنی آواز مل گئی ہو۔ بے نظیرچاروں صوبوں کی زنجیر کہلائیں۔ بینظیر بھٹو، جو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں، نے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے فروغ کے لیے اہم اقدامات کیے۔ اقلیتوں کو سیاسی نمائندگی دینے اور خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنے کے لیے قانون سازی کی۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بین الاقوامی سطح پر مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی۔ اسلامی ممالک کے اتحاد کو فروغ دینے اور عالمی سطح پر پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے قائدین نے اہم کردار ادا کیا۔بینظیر بھٹو،اپنی سیاسی بصیرت سے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتی رہیں۔کہ ایک اور آمر مشرف نے انہیں جبراً ملک سے باہر رہنے پر مجبور کردیا۔ملک میں جمہوریت کی بالادستی کے لیے بے نظیر نے نواز شریف کے ساتھ لندن میں میثاق جمہوریت معاہدہ کیا۔ جس کا مقصد پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنا،آمریت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنا اور سیاسی اختلافات کو پر امن طریقے سے حل کرنا شامل تھا۔میثاق جمہوریت پاکستانی سیاسی تاریخ کی ایک اہم دستاویزہے اوریہ اسی کا ثمر ہے کہ مشرف کے بعد سیاسی حالات چاہے جیسے بھی رہے ہوں۔ منتخب اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پورتی کرتی چلی آرہی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک بھر میں ان کے چاہنے مشتعل تھے۔ جلائو گھیرائو شروع ہو چکا تھا۔ اس وقت آصف علی زرداری نے قومی راہنما کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے کام کرنے کا عہد کیا۔ انتخابات میں پیپلزپارٹی کو برتری ملی،وزرات عظمی اور صدارت جماعت کو ملی تو صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے اختیارات بڑھانے کی بجائے اپنی جماعت کو قومی اسمبلی میں قانون سازی سے صدر کے اختیارات کم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔آج پیپلز پارٹی نہ صرف سندھ بلکہ وفاق اور آزاد کشمیرمیں بھی مضبوط سیاسی قوت بن چکی ہے۔ پیپلز پارٹی نون لیگ اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے میں اہم سیاسی کردار ادا کررہی ہے۔ بلاول بھٹونے کم عمری میں ہی ثابت کردیا ہے کہ وہ بھٹو کے اصل وارث ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملکی سیاست میں جمہوری اصولوں، سماجی انصاف، اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے اہم کردار ادا کررہی ہے یہ وجہ ہے آج ملکی سیاست میں پیپلز پارٹی کو سب سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ موجودہ انتخابات کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی نے سلیم حیدر کو اپنا گورنر لگایا تو اس سے پارٹی کا ورکر خوش تھا۔ ضلع نارووال سے پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری عامر نواز گجر کچھ دن پہلے راقم کے گھر تشریف لائے۔ ان سے طویل نشست ہوئی۔ ملکی سیاست پر گفتگو شروع ہوئی تو ہوئی تو انہو ں نے بتایا کہ موجودہ گورنر سلیم حیدر نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ورکرز میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ ورکر جب چاہیں گورنر صاحب سے مل رہے ہیں اور گورنر صاحب ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کروانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ یوم تاسیس کے موقع پر ملک بھر میں پارٹی قیادت اور کارکنان کی جانب سے اجتماعات، ریلیوں، اور سیمینارز کا اہتمام کیا جانا ملکی سیاسی فضا کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے جیسا ہے۔آج شہر سے گھر واپس آتے جگہ جگہ پیپلز پارٹی کے لہراتے پرچم دیکھ کے ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ شاید اس لیے کہ میرے ملک کو جس سیاسی شعور کو ضرورت ہے اس کے لیے اس جماعت کے راہنماوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور آج بھی اس جماعت کے خیمے میں مدلل گفتگو کرنے والے سیاستدانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ پاکستان زندہ باد