پی ٹی وی ملتان اور حالات حاضرہ

Dec 02, 2024

اظہر سلیم مجوکہ

پی ٹی وی ملتان اب بچپن لڑکپن اور جوانی سے گذر کر کے ہیرانی سالی تک آ پہنچا ہے بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اس لئے ملتان ٹی وی کے پروگراموں میں بہتری کی بھی ابھی مزید گنجائش ہے ابتدا میں ملتان ریڈیو کی بلڈنگ سے پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا اس سے قبل شرافت نقوی اور اسلم قریشی نے لاہور میں سرائیکی پروگرام رت رنگیلڑی میں ملتانی ادب و ثقافت کے فروغ کے لئے بھرپور کردار ادا کیا راقم الحروف ارشد ملتانی حفیظ خان قاسم سیال اور دیگر اھل قلم کی ان پروگراموں سے ملتان کی نمائیندگی کا موقع ملا اب جبکہ ملتان میں مارننگ شو وسیب رنگ اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کے ذریعے جنوبی پنجاب کے ادیبوں شاعروں دانشوروں اور فنکاروں کو نمایندگی کا موقع ملا ہے تو پرانے اور مستقل لوگوں کے علاوہ نئے ٹیلنٹ اور نئے چہروں کو متعارف کرانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے ملتان قدیم ملتان عظیم کے پروگراموں کو محمد یونس چستی نے پروگرام منیجر کی حیثیت سے شروع کیا اینکر پرسن عامر شہزاد صدیقی اور دیگر اھل قلم نے بھی بھرپور تعاون کیا ان پروگراموں میں ملتان کی ثقافت کے قدیم اور جدید حسن کا امتزاج نظر آ تا ہے عامر شہزاد صدیقی پروگراموں کے لئے ریسورس پرسن کا بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت وساخ اور کرنٹ افیئرز کے پروگرام خاصے تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں شاکر حسین شاکر اور سجاد کھوکھر ایک عرصے سے حالات حاضرہ کے پروگراموں کے ذریعے خاصی محنت کر رہے ہیں۔ سرکاری اداروں کی طرح ملتان ٹی وی پر بھی حکومتی چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے اگرچہ سرکاری اداروں میں حکومتی عمل دخل اور گروپ بندی یا لابی ازم نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروگراموں کے حوالے سے بعض طبقات کی طرف سے تنقید بھی سامنے آ تی ہے بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قومی سطح پر حالات حاضرہ کے جو پروگرام پیش کئے جاتے ہیں اس میں ہر طبقہ زندگی کے افراد کی شمولیت یقینی بنائی جاتی ہے یکسانیت موضوعات کا غیر متنوع ہونا اور چند مخصوص لوگوں کو بار بار سکرین پر لانا بھی پروگراموں کی غیر مقبولیت اور تنقید کا باعث بنتا ہے لہٰذا جی ایم ملتان اور کرنٹ آ فئیرز پروگراموں کے پروڈیوسر حضرات اور انچارج شعبہ کو اس حوالے سے مثبت تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پروگراموں کو مقبولیت کے درجے تک لے جانا چاہیے یوں بھی کیبل پر سرکاری ٹی وی کی نشریات نہ ہونے کی وجہ سے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا والی صورتحال بن جاتی ہے۔
 اگرچہ یو ٹیوب لنک کے ذریعے ان پروگراموں کو زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش ضرور کی جا رہی ہے تاہم کیبل پر پروگرام دکھانے کے لئے بھی اقدامات کا ہونا ضروری ہے اس وقت بہت سے پروگراموں کے میزبان اگرچہ محنت سے پروگرام پیش کرتے ہیں تاہم اس میں سیکنڈ لائین تیار کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ آ نے والے وقتوں میں جدید تقاضوں کے مطابق پروگراموں کو ڈھالا جا سکے۔ سید اسد علی نقوی اور سیف الدین نے بطور جی ایم ملتان ٹی وی کا معیار بہتر رکھا ہے۔ اب وہ صدر دفتر میں پروگرام ڈائیرکٹر کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں تو ان کی صلاحیتوں اور مشاورت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے ویسے بھی آ رٹس کونسل اور اکادمی ادبیات پاکستان جیسے ادبی اور ثقافتی اداروں کی طرح ہر مقامی سنٹر پر اھل قلم ادیبوں اور فنکاروں مے نمائندہ لوگوں پر مشتمل افراد کی مشاورتی کمیٹیاں بھی بنانی چائیں جن کی بر وقت اور مثبت تجاویز کی روشنی میں پروگراموں کے معیار کو بہتر بنایا جائے ملتان سنٹر پر مستقل اسکرپٹ رائٹر کی تقرری بھی ضروری ہے۔
 مشاہیر ملتان اور رفتگان شہر پر معیاری اور خصوصی پروگرام کئے جائیں ایم ڈی ٹی وی بھی عوامی حلقوں کی مثبت تجاویز پر عملدرامد کے لئے نہ صرف ذاتی دلچسپی لیں بلکہ پروگرام کی مزید بہتری کے لئے مانٹرینگ کا نظام بہتر ہو تخت لاہور سے ادارے کا سربراہ نامزد کرنے کی بجائے اگر مقامی سطح سے نامزدگی کی جائے تو اس کے دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں مقامی سربراہ علاقے کی ثقافت کے ساتھ وہاں کے نمائندہ لوگوں سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں اور دوسرے شہروں کی امدورفت کی سفری صعوبت سے بھی محفوظ ریتے ہوئے اپنی توجہ ادارے پر مرکوز رکھ سکتے ہیں 
 مارننگ شو وسیب رنگ کی میزبان شان زینب بھی پروگرام کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں شہگی پیرزادہ فاروق رشید لغاری اویسی شعبہ نیوز کے شفیق عادل اور خرم شجرا بھی خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں شعبہ پروٹوکول میں نواں ہمت اویس بھی خاصے سرگرم ہیں پی تی وی کو سرائیکی وسیب کی تہزیب و ثقافت اور شعر وادب کی ترجمانی کے لئے قوس و قزح کے رنگوں کی طرح ایسا چہرہ سامنے لانا ہوگا جو آ ئینے کی طرح صاف شفاف اور چمکتا دمکتا نظر آ ئے اور اس کے لیے تمام طبقات کی مشاورت کے ساتھ ساتھ میرٹ کی بالا دستی رکھتے ہوئے پسند ناپسند سے بھی بالا تر ہو کر سوچنا ہوگا کہ
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی 
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
٭…٭…٭

مزیدخبریں