مرحوم جنرل پرویز مشرف کی حاضر جوابی

یہ ہماری قومی بد قسمتی ہے کہ ہمارے کچھ اچھے جنرلز سیاسی دخل اندازی کی وجہ سے متنازعہ شخصیات قرار پائے۔معلوم نہیں یہ ان کی ذاتی ہوس تھی یا حالات کی مجبوری لیکن اُن کی اس دخل اندازی سے ہماری تاریخ بھی مسخ ہو گئی۔اگر وہ صرف اپنے عسکری فرائض تک محدود رہتے تو وہ یقینا قوم اور ملک کی بہتر خدمت کر سکتے تھے۔ بہرحال بطور مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو تو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ان متنازعہ جنرلز میں ایک نام جنرل پرویز مشرف کا بھی ہے ۔ اُسے اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا جن میں ایک فنِ تقریر اور حاضر جوابی تھی۔ عام طور پر فوجی آفیسرز اچھے مقرر نہیں ہوتے اور اکثر و بیشتر تقریر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یا د آرہا ہے جو 1971؁ء کی جنگ کے دوران پیش آیا۔ میںاُس وقت ناردرن سکاؤٹس گلگت میں بطور کیپٹن ایجوکیشن آفیسر تعینات تھا۔ جب مشرقی پاکستان میں جنگ زوروں پر تھی تو ہمارے ناردرن سکاؤٹس کی فارورڈ پوسٹوں پر بھی بھارت کی طرف سے ہیوی فائرنگ اور طاقتور حملے شروع ہو گئے جن کا ہمارے نوجوان آفیسرز اور جوان بڑی دلیری سے مقابلہ کر رہے تھے لیکن جنگ آخر جنگ ہوتی ہے شہادت /موت کا خطرہ تو ہر وقت رہتا ہے۔ وہاں ہمارے تمام سولجرز مقامی لوگ تھے تو ہمارے کمانڈنگ آفیسر نے ایک کیپٹن کو حکم دیا کہ مقامی کالج میں جاکر ایک موٹیویشنل لیکچر دے۔ کپتان صاحب یہ حکم سن کر دفتر سے باہر آئے تو سخت گھبرائے ہوئے تھے۔ وہ ہر صورت میں لیکچر سے بچنا چاہتے تھے۔ اُس نے اس کا حل یہ نکالا کہ کمانڈنگ آفیسر کو کہہ کر آگے جنگ میں چلا گیا تاکہ لیکچر سے بچ جائے۔
گو فوج تربیت اور سروس کے دوران مختلف انداز میں بولنے کے مواقع دیتی ہے لیکن پھر بھی کچھ آفیسرز اچھے مقرر نہیں بن سکتے ۔ وہ مجموں کے سامنے بولنے سے گھبراتے ہیں۔ اچھا بولنا اور اچھا مقرر ہونا قدرت کا عطیہ ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ خوش قسمتی سے جنرل پرویز مشرف میں یہ فن بدرجہ اُتم موجود تھا۔ بطور صدرِ پاکستان اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس نے بین الاقوامی طور پر کئی اہم مقامات پر تقریریں کر کے کافی پیسہ کمایا۔ ایک تو دلیر آدمی تھا بات چیت ، سوالات اور اعتراضات سے گھبراتا نہیں تھا خصوصاً جہاں ملکی عزت کا سوال آتا تو اس کی حاضر جوابی اتنی مؤثر ہوتی کہ سوال کرنے والے کو چپ کرادیتا۔ یہ ہندو پاک کا واحد جنرل تھا جو اپنے مخالفین کے ملک میں جا کر لائیو پریس کانفرنسز کرتا اور ہر قسم کے سوالات کا جواب دیتا۔ قائد اعظم کی طرح جوابات بھی اتنے مدلل ہوتے کہ پوچھنے والے خود شرمندہ ہو کر بیٹھ جاتے۔ ویسے تو اس کی کئی مثالیں ہیں لیکن چند اہم مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔ ایک دفعہ امریکہ میں پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے پوچھا ـ’’جنرل صاحب اسامہ بن لادن ایک فوجی علاقہ میں چھپا ہوا تھا یا آپ نے خود چھپایا ہوا تھا؟اس کے چھپنے والے گھر کے آس پاس ہر وقت فوج پھرتی رہتی تھی پھر بھی پتہ نہ چلنا نااہلی نظر آتاہے۔ ‘‘پرویز مشرف نے بتایا کہ’’ واقعی انہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ کہا ں چھپا ہوا ہے؟‘‘ اس جواب سے صحافی شیر ہو گیا۔اس نے مزید پوچھا:’’تو پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آپ کی ISI دنیا کی نمبر 1ایجنسی ہے؟ آپ کی انٹیلیجنس ایجنسی تو مکمل طور پر ناکام ہوئی۔‘‘
ہال صحافیوں سے بھرا ہوا تھا ۔اس سوال پر صحافیوں کی نظر میں جنرل پرویز مشرف شرمندہ ہوچکا تھا۔ اس کے پاس مناسب جواب نہیں تھا لیکن حقیقت میں ایسے نہیں تھا۔ جنرل نے جواب دیا:’’ آپ ذرا 9/11کی طرف آئیں۔ تین ماہ دہشت گرد امریکہ میں رہ کر ٹریننگ کرتے رہے۔ 9/11کے دن چار جہاز دہشت گردوں نے مختلف ائیر پورٹ سے اغواء کئے اور پینٹاگون لے آئے۔ سب کے سامنے بلا ججھک انہوں نے حملہ کر کے ’’ خاص بلڈنگ ‘‘ کو زمین بوس کر دیا۔ یہ تمام عرصہ آپ کی CIAکہاں تھی؟CIA دنیا کی نمبر 1اور طاقتورایجنسی ہے اور امریکہ دنیا کی سپر پاور مانی جاتی ہے۔‘‘یہ جواب سن کر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا اور دس منٹ تک تالیاں بجتی رہیں۔ اس کے بعد کسی صحافی کو سوال پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
 ایک بھارتی دورہ کے دوران ایک تیز طرار خاتون صحافی نے جنرل پرویز مشرف کا انٹر ویو کیا۔انٹر ویو میں خاتون نے پاک فوج پر طنز کیا کہ ’’ہم نے آپ کو مشرقی پاکستان سے لے کر کارگل تک ناکام کیا‘‘ جنرل صاحب نے مسکرا کر جواب دیا:’’ مشرقی پاکستان میں حالات ایسے تھے جہاں کوئی سپر پاور بھی کامیاب نہ ہوسکتی لیکن کارگل میں ہم نے آپ کی فوج کو گردن سے دبوچ لیا تھا ۔ کہاں تھی آپ کی اتنی بڑی ایٹیلیجنس ایجنسی جس پر آپ بڑا فخر کرتے ہیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ آپ حالانکہ انڈین آرمی کے بہترین تین پہاڑی ڈویژن لڑنے کے لئے آئے۔ تیس ہزار کی نفری ، بوفر توپیں ، ہوائی بمباری تین ماہ تک ٹکریں ماریں لیکن ان مجاہدین کو مورچوں سے نہ نکال سکی۔یہ تھی آپ کی بہادر فوج حالانکہ یہ مورچے آپ کی اپنی سر زمین پر اپنے بنے ہوئے تھے۔‘‘ ایک اور اسی قسم کے جواب میں مشرف نے بتایا ـ’’آپ کی فوج ہم سے تین گنا زیادہ ہے ۔ بہترین جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔ آپ نے جو بھی ہاتھ پاکستان کی طرف بڑھایا ہم وہ ہاتھ ہی کاٹ دیں گے۔ ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں شک ہے تو کوشش کر کے دیکھ لیں۔ ایک دفعہ نہ جانے کیوں پرویز مشرف کوجوش آیا کہ بھارت میں جاکر پریس کانفرنس کی جائے۔ پریس کانفرنس کرنے کا کوئی خاص موقعہ تو نہیں تھا ۔ سب اہم لوگوں نے بشمول جنرل صاحب کے گھر والوں کے بھارت جانے سے منع کیا۔ خوف تھا کہ دشمن ملک کے صحافی کوئی سیکنڈل نہ بنا لیں۔ جنرل صاحب اپنی ضد کے پکے تھے چلے گئے۔ 
پریس کانفرنس کے دوران ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ بھارتی صحافیوں نے مشرف کو بدنام کرنے اور مذاق اُڑانے کا فیصلہ کیا۔ کچھ ٹیڑھے قسم کے سوالات تیار کئے گئے۔ کانفرنس شروع ہوئی تو بھارت کے ایک ریٹائرڈ میجر نے سوالوں کی ابتدا ء کی ۔ غالباً یہ بھی کوئی صحافی ہی تھا۔ اس نے سوال پوچھا:’’ جناب جنرل صاحب آپ کے ملک میں دہشت گردی بہت بڑھ گئی ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا رہتا ہے اور بے قصور لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ آپ دہشتگردی پر قابو نہیں پاسکتے۔ آپ ایسا کریں کہ لاہور ہم امرتسر والوں کے حوالے کر دیں اور کراچی دہلی والوں کو دے دیں ہم کنٹرول کر لیں گے۔ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ کچھ لوگ خوشی سے ہنس رہے تھے کہ دیکھتے ہیں کیا جواب ملتا ہے ۔ اُن کے خیال میں اس سوال کا جواب ممکن نہ تھا۔
 جنرل صاضب نے سوال سن کر کرسی سے اوٹ لگائی اور ہنسنے لگے۔ سامعین سانس روک کر جواب سننے کے لئے تیار تھے۔ غیر ممالک خصوصاً دشمن ملک میں جواب بھی بڑے سوچ سمجھ کر دینے پڑتے ہیں تاکہ کوئی سکینڈل نہ بنے یا خواہ مخواہ کی ناراضگی نہ ہو۔ جنرل صاحب نے بڑے اطمینان سے جواب دیا:
’’ 2008ء میں بھارت میں دہشتگردی کے آٹھ واقعات ہوئے جن میں چھ واقعات مقامی مجاہدین کی طرف سے کئے گئے تھے۔ آپ لوگ کچھ بھی نہ کر سکے۔ لہٰذا دہلی مجھے دے دیں میں اِسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں ۔‘‘ 
زور کی تالیوں سے جواب ملا۔ سوال پوچھنے والا میجر صاحب شرمندہ ہو کر بیٹھ گیا۔ مزید کسی نے سول پوچھنے کی جرأت نہ کی۔

ای پیپر دی نیشن