پی ٹی آئی کو لائن پر کون لایا؟

جبار مرزا کو پروفیسر ڈاکٹر نسیم خاں سیما نے ’’زندہ تاریخ‘‘ لکھا ہے تو سچ ہی لکھا ہے۔ پچھلے دنوں ان کی صحافتی یادوں پر مشتمل کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس میں انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کا ایک واقعہ ’’اللہ ہی انہیں لائن پر لائے تو لائے‘‘کے عنوان سے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں:
’ ’یہ 1999ء کی بات ہے۔ ان دنوں میں اسلام آباد کے روزنامہ ’’مرکز‘‘کا ایڈیٹر تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے سیکرٹری نے فون کر کے روزنامہ ’’مرکز‘‘کے ٹیلی فون آپریٹر سے کہا:’’مولانا آپ کے ایڈیٹر صاحب سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ایڈیٹر جبار مرز اکو لائن پر لائیں‘‘۔ اس پر آپریٹر بولا:’’چونکہ مولانا بات کرنا چاہتے ہیں اسلئے پہلے آپ مولانا کو لائن پر لائیں پھر میں انہیں ایڈیٹر صاحب سے ملواؤں گا‘‘۔ سیکرٹری نے آپریٹر کو ہولڈ کروا کرمولانا سے کہا:’’وہ کہہ رہا ہے کہ پہلے مولانا کو لائن پر لائیں‘‘۔ اس پر مولانا کو غصہ آگیا۔ ان کے پاس میرا ڈائریکٹ نمبر موجود تھا۔مجھے فون ملا کر کہنے لگے:’’مرزا صاحب یہ کیا ہے۔ آپ کاآپریٹر کہہ رہا ہے کہ مولانا کو لائن پر لائیں‘‘۔ میں نے کہا:’’مولانا!آپریٹر سادہ آدمی ہے، اسے سمجھاؤں گا، اسے کیا معلوم کہ آپ کو کوئی کہاں لائن پر لا سکتا ہے، اللہ ہی آپ کو لائن پر لائے تو لائے‘‘۔ 
تاریخ میں کچھ واقعات تحقیق طلب ہوتے ہیں۔ زندہ قومیں ان پر تحقیق کرتی ہیں۔ پھر اس کی روشنی میں ان سے سبق سیکھتی ہیں اور اپنا آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں۔ آج تک کوئی نہیں پا سکا کہ 1977ء میں اچھی بھلی الیکشن دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک جمہوریت، تحریک نظام مصطفی میں کیسے ڈھل گئی؟ کیا اسی کام کیلئے خطیب رفیق احمد باجوہ کو پلانٹ کیا گیا تھا؟ اس عظیم خطیب نے اپنی خطابت کے بھرپور جوہر دکھائے۔ پھر اسے منظر نامہ سے ہٹا کر گوشہ گمنامی میں پھینک دیا گیا۔ پھر کسی کو بھی اس کا کوئی اتا پتہ اور خبر نہ تھی۔ اس کی موت پر یہ جملہ سننے میں آیا۔
رفیق باجوہ کی موت کی خبر میں یہ خبر بھی ہے کہ وہ زندہ تھا۔ رفیق باجوہ کی خطابت نے اس تحریک کو مذہبی ٹچ دے دیا۔ اس مذہبی ٹچ نے اس جمہوری تحریک کو بہت جاندار بنا دیا۔ سارا ماحول بڑی شدت سے مذہبی ہو گیا۔ بھٹو اسی باعث شراب، جوئے پر پابندی اور جمعہ کی چھٹی کے اعلان پر مجبور ہوا۔
دو راندیش قومیں بہت دور کی سوچتی ہیں۔ کیا امریکہ کو پاکستان سے آنے والی افغان وار کیلئے مجاہدین کی بھرتی کی ضرورت تھی؟ کیا یہ سارا مذہبی اہتمام اسی سلسلہ میں مذہبی ماحول بنانے کیلئے کیا گیا؟ پھر ایک سیاسی رہنما کی بجائے ایک فوجی افسر امریکیوں کے لئے زیادہ کارآمد ثابت ہونا تھا؟ مارشل لاء اور امریکہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سفارتی حلقوں میں یہ سوال جواب نما لطیفہ اکثر گردش کرتا رہتا ہے۔ سوال۔ امریکہ میں کبھی مارشل لاء کیوں نہیں لگائی جاتی؟ جواب۔ امریکہ میں امریکی سفارتخانہ جو نہیں ہوتا۔ 
پاکستان وقت سے پہلے پیدا ہونے والا بچہ ہے۔ ابھی ادھر کے مسلمانوں میں سیاسی پختگی پیدا نہ ہوئی تھی کہ پاکستان کی ولادت ہو گئی۔ پہلے یہاں بادشاہت تھی۔ پھر انگریزوں کی غلامی کے بعد یکدم آزادی مل گئی۔ ابھی ہماری باقاعدہ سیاسی تربیت ہو ہی نہیں پائی تھی۔ مسلم لیگ بنیادی طور پر رفاعی کاموں کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس نے سیاسی کردار صرف 1935سے 1947تک ادا کیا۔ اسکے برعکس کانگریس کا سیاسی تجربہ برسوں پر محیط تھا۔ رہا بنگال اور مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کا موازنہ اس بنیاد پر نہیں بنتا کہ بنگال میں عام طور پر لوگ مڈل کلاس تھے اور پڑھے لکھے تھے۔ ادھر جاگیرداری کا تسلط بھی نہیں تھا۔ ہماری سیاسی تربیت بالکل نہیں ہوئی۔ ہماری جمہوریت بھی جاگیر دارانہ رنگ، ڈھنگ، ڈھب اور مزاج کی ہے۔ ادھر الیکشن ایک جنگ ہے‘ جنگ میں جیت کیلئے ہر بے اصولی جائز ہے۔ صرف ہر قیمت پر جیتنا مقصود ہوتا ہے۔
 اختلاف رائے کا کوئی احترام نہیں ہوتا۔ جبکہ جمہوریت کی بنیاد ہی یہی ہے۔ والٹیئر کا قول ’’مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے لیکن میں آپ کو اس رائے کے اظہار کا حق دلوانے کیلئے اپنی جان تک دینے کیلئے تیار ہوں‘‘فرانسیسی پارلیمنٹ کے ماتھے پر ثبت ہے۔ 
قیام پاکستان کے پہلے دن سے ہی یہاں سول، فوجی بیوروکریسی، سیاستدانوں سے زیادہ منظم، طاقتور، سوجھ بوجھ اور وسائل والے تھے۔ قائد اعظم کو اپنے پہلے ایک فوجی مرکز میں دورے پر ایک نوجوان فوجی کو سمجھانا پڑا کہ پالیسی بنانا ہم سویلین کا کام ہے اور آپ کا کام صرف ہمارے احکامات کی تعمیل ہے۔ اسے پاک فوج میں انگریز افسروں کی تقرریوں پر اعتراض تھا۔ 1951ء میں پاکستان میں امریکی سفارتخانہ سے امریکہ یہ اطلاع پہنچتی ہے ’’آج آرمی چیف جنرل ایوب خاں سے ملاقات ہوئی۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم اس ملک کے سیاستدانوں کو یہ ملک تباہ نہیں کرنے دیں گے۔ملک کی حفاظت پاک فوج کی ذمہ داری ہے اور وہ اپنی اس ذمہ داری سے پوری طرح آگا ہ ہے‘‘۔ ادھر جاگیردار وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں ریاست اور حکومت میں فرق نہ سمجھ سکا۔پہلے الیکشن میں ہی ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کے خلاف ووٹ ریاست پاکستان کے خلاف ووٹ ڈالنا ہے۔ 
نواز شریف کا کہنا ہے کہ ہم نے 75برس کھو دیئے۔ اب ہمیں آئندہ 75 برسوں کے بارے سوچنا چاہئے۔ لیکن ایک سوال ہے۔ کیا ہم 1960ء میں جاپان اور 1963ء میں جرمنی کو قرض دینے والا ملک نہیں تھے؟ کیا 1970ء تک پاکستان کے تعلیمی اداروں میں غیر ملکی طلباء زیر تعلیم نہیں رہے؟
 ایک رائے ہے کہ عمران خان، نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے میثاق جمہوریت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے شدید رد عمل کا نام ہے۔ زرداری، نواز شریف اور عمران خان سبھی اسی سرکار کے بھجوائے ہوئے ہیں۔ تینوں نے کبھی فوج کو بیرکوں تک محدود کرنے کی بات نہیں کی۔ اب ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے انکشافات غیر اہم ہو گئے ہیں۔ عسکری حلقے اپنی کاروباری سرگرمیو ں سے  400 ارب سالانہ ٹیکس کی ادائیگی کے دعویدار ہیں۔ بیشک عمران خان کی بے پناہ مقبولیت مقتدر حلقوں کو کھٹک رہی تھی لیکن وہ دھیمے سروں میں چل رہے تھے کہ اسی میں عافیت ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب وہ سنگجانی کے مقام پر احتجاج کیلئے مان گئے تھے تو پھر جلوس کو ڈی چوک لا کر حکومت کو فرنٹ لائن کھیلنے کا موقع کس نے فراہم کیا؟ 
بس کر میاں محمد بخشا موڑ قلم دا گھوڑا 
ساری عمر دکھ نئیں مکنے ورقہ رہ گیا تھوڑا
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن