پیر ‘ 29 جمادی الاول 1446ھ ‘ 2 دسمبر 2024ء

بانی کی ذہنی و جسمانی صحت کے بارے میں افواہیں، لوگ کان نہ دھریں، وقاص اکرم
خدا جانے یہ کیسی سازش ہو رہی ہے یا جان بوجھ کر پی ٹی آئی بانی کے خلاف کوئی نیا ڈراما رچایا جانے لگا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک مفرور رہنماء قاسم سوری نے خدا جانے کیوں اپنے ٹویٹ میں اپنے بانی کی ذہنی حالت درست نہ ہونے کا شوشا چھوڑا ہے اور ان کی جسمانی حالت پر بھی شکوک کا اظہار کرکے نت نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اگرچہ علیمہ خان نے اپنے بھائی کے بارے میں ایسی لغو باتوں کی تردید کی ہے مگر قیدی کے وکیل فیصل چودھری جو فواد چودھری کے بھائی ہیں، نے بھی نیا شوشا چھوڑا ہے کہ بانی اس وقت اڈیالہ جیل میں موجود نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ملنے نہیں دیا جا رہا۔ شاید کل کو بھی ان سے ملاقات نہیں کرائی جائے۔ اب ایک طوفان تھمتا نہیں کہ ایک نیا طوفان منہ کھولے سامنے آجاتا ہے۔ کپتان کی ذہنی حالت اگر اچھی نہ ہوتی تو وہ قاسم سوری کو خفیہ تار بھیجنے کے بجائے یہ بات اپنی بہنوں سے یا اپنی بیگم سے بھی کہہ سکتے تھے مگر قاسم سوری کہہ رہے ہیں کہ بانی کے سیل میں زہریلا سپرے کیا گیا ہے اور فیصل چودھری کہتے ہیں وہ اڈیالہ جیل میں نہیں مگر قیدی کے گھر والے ان کے بیانات سے متفق نظر نہیں آرہے جبکہ یہ دونوں کے خدشات پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اب وقاص اکرم کہہ رہے ہیں عوام ان باتوں پر کان نہ دھریں، یہی بات علیمہ خان بھی کہہ رہی ہیں مگر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں، کیا معلوم اس طرح علاج کے بہانے ان کو رہا کیا جا سکے یا وہ باہر کہیں علاج کے لیے چلے جائیں مگر لگتا نہیں ایسا ہوا ہوگا اگر انھیں دہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہوتا تو وہ احتجاجی دھرنے کے مقام کی ہدایات بشریٰ بی بی یا علی امین گنڈاپور کو کیسے دیتے؟
٭…٭…٭
سیاسی جماعتوں میں اتنی قوت ہے کہ ملک کو مسائل سے نکال سکتی ہیں، بلاول
خدا کرے ایسا ممکن ہو اور وہ ایسا کریں ورنہ ہماری سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے فرصت ملے تو وہ ملک کی طرف توجہ دیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو ملکی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، عوام کا کیا حال ہے، انھیں پروا نہیں۔ ان سب کا محور سیاست صرف اور صرف تخت اسلام آباد حاصل کرنا ہے۔ وہاں کے ایوان اقتدار اور حکومتی محلات ان کا مقصد حیات ہے۔ جو جیت جائے اسے کوئی قبول نہیں کرتا جو ہارتے ہیں، وہ بھی شکست قبول نہیں کرتے۔ ووٹ کا فیصلہ قبول کرنے کی بجائے سڑکوں پر نکل کر اپنی مرضی کا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں ملک میں تصادم کی پالیسی کے باعث خانہ جنگی کی کیفیت سامنے آتی ہے۔ کیا سیاسی کیا غیرسیاسی یا مذہبی جماعت کوئی بھی ہو، اس وائرس سے محفوظ نہیں، سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ کبھی سیاسی جماعتیں کبھی مذہبی جماعتیں اور کبھی صوبائی لسانی گروہی سیاست کی علمبردار جماعتیں اور تنظیمیں مل کر اتحاد بنا کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی ہیں تو کبھی مل کر مخالف جماعت کی حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے کے لیے اسلام آباد پر ہلہ بولا جاتا ہے۔ یوں ملک کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ ساری ریاستی مشینری کام کاج چھوڑ کر احتجاجی مظاہرین کے درپے ہو جاتی ہے۔ پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرے طاقتور اداروں کی طرف دیکھا جاتا ہے کہ وہ آکر ان کی مدد کریں۔ جب ان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آتا ہے تو اس پر بھی یہ جماعتیں جن کے حق میں بات ہو، وہ مٹھائیاں بانٹتی ہیں جن کو اس بات سے اختلاف ہو وہ جمہوریت کا ماتم کرنے لگتی ہیں، یعنی پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ سیاسی جماعتیں خود بیساکھیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنے زور بازو پر ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھیں۔ عوام تو کب سے یہ تماشا دیکھ کر اکتا چکے ہیں۔ اب سیاسی جماعتوں کو اپنا زور بازو دکھاتے ہوئے ملکی مسائل حل کرنا ہوں گے۔ انھوں نے درست کہا ہے کہ اب سیاست دانوں کو بھی سیاست کے دائرے میں لانا ہوگا۔
٭…٭…٭
امریکی پولیس نے لوگوں کو تنگ کرنے والے دو بکروں کو پکڑ لیا
 بات تو بڑی عجیب ہے، اگر یہ بکرے انسانوں کی بجائے اپنی برادری کو ہی تنگ کر رہے ہوتے تو شاید ان کے خلاف یہ ایکشن نہ ہوتا۔ امریکی دارالحکومت  واشنگٹن میں بکروں کا یہ جوڑا وہاں سڑک پر چلنے والوں کا پیچھا کرکے انھیں ہراساں کرتا پایا گیا ہے، یہ تو غلط بات ہے۔ پولیس کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ دو خوبصورت جوڑا لوگوں کو تنگ کر رہا تھا جس پر پولیس نے انھیں پکڑا ہے مگر فکر نہ کریں، انھیں نہ تو جیل بھیجا جائے گا نہ ان پر مقدمہ ہوگا۔ پہلے تو ان کے مالک کو تلاش کیا جائے گا کہ کہاں ہیں اور یہ جوڑا کہاں سے فرار ہو کر شہریوں کے درپے ہوا ہے۔ یہ جانور سیٹیاں بجانے یا آواز کسنے سے تو رہا۔ ہاں البتہ اگر راہگیروں کو ٹکریں مارنے لگا ،ان سے کھانے کی چیزیں چھیننے کے لیے ان کے پیچھے دوڑنے لگا ہو تو یہ بات عورتوں اور بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ اب پولیس نے انھیں پکڑ کر آوارہ جانوروں کی پناہ گاہ پہنچا دیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس ملک کے حکمران خود دنیا بھر کو تنگ کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، وہاں کے لوگ بکروں سے بھی ڈر جاتے ہیں۔ شکر کریں ایسے سفید بکرے اگر ہمارے ہاں کسی شہر میں مٹرگشت کرتے پائے گئے ہوتے تو پولیس کی بات چھوڑیں، خود شہری ہی نہایت چالاکی سے ان کو قابو کرکے فروخت کر چکے ہوتے یا قصاب انھیں ذبح کرکے اچھی خاصی رقم کما چکے ہوتے۔ اگر پولیس لے جاتی تو شاید ایک عدد افسر یعنی مہتم تھانہ رکھ لیتا اور دوسرے کی تھانے کی ساری نفری دعوت اڑاتی اور قیامت تک ان بکروں کا پتہ نہ چلتا کہ وہ کہاں ہیں۔ امریکی پولیس اب ان کے مالک کوجانوروں کا خیال نہ رکھنے پر جرمانہ کر سکتی ہے۔
٭…٭…٭
برطانیہ میں بھی قریب المرگ مریضوں کو مرنے کی اجازت دیدی گئی
یہ ہمیشہ ایک ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ یورپ ہو یا امریکا، یعنی  جدید ممالک میں اس پر کافی لے دے ہوتی رہی ہے کہ خطرناک ناقابل علاج بیماریوں میں مبتلا اذیت کے ساتھ زندہ رہنے والے مریضوں کو اس طرح سسک سسک کر موت کے وقت انتظار کرنے دیا جائے یا انھیں آرام سے ان کی مرضی کے مطابق مرنے کی اجازت دی جائے تاکہ اس کی اذیت کم ہو۔ کئی ممالک نے اگرچہ اس کی قانوناً اجازت دی ہے مگر اکثریت ابھی تک ایسا کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ بڑی شدومد کے بعد طویل بحث و مباحثے کے بعد اب برطانیہ میں ایسی تکالیف میں مبتلا مریضوں کو مرنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے 275 کے مقابلے میں 330 ووٹوں کے ساتھ یہ بل منظور کرلیا ہے تاہم 18 برس سے کم عمر کو اجازت نہیں ہوگی اور ڈاکٹروں کا بورڈ جن مریضوں کی بمشکل چھ ماہ تک زندہ رنے کی امید رکھتے ہوں، وہ اس قانون سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ابھی تک جن ممالک میں اس طرح مرنے کی اجازت ہے جسے خودکشی کہہ سکتے ہیں، ان میں برطانیہ کے علاوہ ہالینڈ‘ بیلجیم، سوئٹزرلینڈ، کینیڈا، کولمبیا اور لکسمبرگ شامل ہیں۔ امریکا کی کئی ریاستوں میں بھی اس کی اجازت ہے جبکہ مذہبی طبقات، اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں جینے کی پابندی وہاں مرنے کی پابندی
تاہم اب یہ رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ جو بیمار مشینوں کی مدد سے سانس لے رہا ہو، یعنی مصنوعی طور پر زندہ ہو، اگر مشین ہٹا کر اسے آرام سے مرنے دیا جائے تو وہ خودکشی نہیں ہوگی۔ ہم پاکستانی بے چارے اس بارے میں کیا کہیں گے، ہم تو روز جیتے اور مرتے ہیں۔ سچ کہیں تو ان میں کئی مرتبہ رات کو کئی مرتبہ قریب المرگ  نہ ہونے کے باوجود خودکشی کی اذیت سہتے ہیں۔ یہاں لوگ بیماری سے کم ذہنی پریشانیوں سے زیادہ مرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن