اسرائیلی حملوں میں تیزی  برطانیہ میں احتجاج

غزہ میں اسرائیلی حملوں میں تیزی آگئی۔ 24 گھنٹوں کے دوران مزید100 فلسطینی شہید ہو گئے۔ گزشتہ2 ماہ کے دوران شمالی غزہ کے جاری اسرائیلی محاصرے میں وحشیانہ زمینی اور فضائی حملوں میں شہدا کی تعداد 2 ہزار 700 تک پہنچ گئی ہے۔ اب تک اسرائیلی جارحیت میں 45 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے دوگناہے جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ فلسطینی اپنے گھروں تو کیا پناہ گزین کیمپوں، عبادت گاہوں اور ہسپتالوں تک میں بھی محفوظ نہیں ہیں، ادھر باقی کسر سنگین غذائی بحران نے نکال دی ہے۔ اسرائیل جہاں بمباری کر کے فلسطینیوں کو خاک اور خون میں ملا رہا ہے وہیں عالمی سطح پر آنے والی امداد بھی فلسطینیوں تک نہیں پہنچنے دے رہا۔ عالمی برادری خصوصی طور پر اقوامِ متحدہ بے بسی کا نمونہ بنی ہوئی ہے جبکہ امریکا و برطانیہ جیسی بڑی طاقتیں بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ان کی طرف سے ظالم اسرائیل کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ یہ ان حکومتوں اور حکمرانوں کے رویے ہیں جبکہ انھی ممالک کے لاکھوں عوام کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہوچکے ہیں۔ گزشتہ روز لندن میں غزہ اور لبنان جنگ میں جاری اسرائیلی قتل عام کے خلاف بڑا احتجاج کیا گیا۔ جنگ مخالف تنظیموں کا اسرائیلی مظالم کے خلاف قومی سطح کا یہ 22 واں احتجاج تھا۔ منتظمین کے مطابق اسرائیلی قتل عام کے خلاف مظاہرے میں ایک لاکھ 20 ہزار افراد شریک ہوئے۔ مظاہرین پارک لین سے مارچ کرتے ہوئے وائٹ ہال پہنچے اور جنگ بندی کے لیے نعرے لگائے۔ احتجاج میں شریک افراد نے مطالبہ کیا کہ برطانیہ، اسرائیل پر فلسطینیوں کا قتل عام بند کرانے کے لیے دباؤ ڈالے۔ کہنے کو تو امریکا اور برطانیہ میں جمہوریت ہے یہاں جمہور کی آواز پر کان دھرنا ضروری ہوتا ہے مگر عملی طور پر ایسا نظر نہیں آتا۔ جمہوری اصولوں کا تقاضا ہے کہ عوامی مظاہروں میں جو مطالبات سامنے آتے ہیں ان کو سنا جائے اور ان پر عمل کیا جائے مگر یہ طاقتیں عوامی مطالبات کو پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دے رہیں۔ اس سے زیادہ جمہوری رویے تو چین کے ہیں جسے یہ ممالک غیر جمہوری ریاست سمجھتے ہیں۔ عالمی قوتیں منافقت کے خول سے نکلیں، بے حسی سے کام نہ لیں جبکہ اقوام متحدہ بے بسی کا اظہار نہ کرے اور اپنی طاقت فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم سے نجات لانے کے لیے استعمال کرے۔

ای پیپر دی نیشن