خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں مزید 2 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہو گئے۔ 10 روز کے دوران جاں بحق افراد کی تعداد 124 ہو گئی ہے جبکہ 178 زخمی ہوئے ہیں۔ علاقے میں موبائل، انٹرنیٹ سروس اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ علاقے میں مرکزی شاہراہ اور پاک افغان خرلاچی بارڈر پر آمد و رفت تاحال معطل ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کے مطابق قیامِ امن کے لیے فریقین کے عمائد کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ فائر بندی اور آمد و رفت کے راستے کھولنے سے متعلق پیش رفت متوقع ہے۔ پاڑا چنار میں پھنسے جوڈیشل افسروں اور عملہ کو دس دن گزرنے کے بعد بھی ریسکیو نہیں کیا جا سکا۔ کشیدگی کے باعث راستے بند ہیں، مختلف علاقوں میں فریقین کے درمیان جھڑپیں ابھی بھی جاری ہیں۔
صوبے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ضلع کرم کے حوالے سے ہونے والے جرگے میں ہدایت کی ہے کہ پولیس فریقین کے مورچے گرائے اور اسلحہ فوری تحویل میں لے۔ جرگے میں ضلع کرم میں کشیدگی کے خاتمے اورامن و امان قائم کرنے پر زور دیا گیا۔ ترجمان کے مطابق، علی امین گنڈاپور نے ضلع کرم کے عوام کو پرامن رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام غیرت مند اور پرامن ہیں، امن و امان کے لیے حکومت کسی بھی حد جانے کے لیے تیار ہے۔ علی امین گنڈاپور نے حکم دیا کہ لوگوں کا مالی نقصان فوراً پورا کیا جائے، فریقین کے پاس موجود اسلحہ فوری تحویل میں لے کر جمع کیا جائے، بے شک امن کی بحالی تک وہ اسلحہ امانتی طور پر انتظامیہ اپنے پاس رکھے۔ فریقین فوری سیز فائر کریں اور سابق امن معاہدوں پر عمل کریں۔
ادھر، کے پی ہی کے ضلع لکی مروت میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پنجاب پولیس کے اہلکار سمیت تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ واقعہ علاقہ پہاڑ خیل پکہ میں پیش آیا جہاں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر دی۔ جاں بحق ہونے والوں میں مقامی باپ بیٹا بھی شامل ہے جبکہ شہید ہونے والے پولیس اہلکار چھٹی پر گھر آیا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم واردات کے بعد فرار ہو گئے۔ خیبر پختونخوا سے ایک اور خبر یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان لوئر میں تین روز کے لیے کرفیو نافذ کردیا گیا۔ جنوبی وزیرستان لوئر کی تحصیل شکئی کے علاقہ سانگہ اور انضر چینہ میں کل سے تین روزہ کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان لوئر ناصر خان کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق کرفیو کے دوران باہر نکلنے پر مکمل پابندی ہو گی، تحصیل شکئی میں کل سے سکیورٹی فورسز کی حرکت کے باعث تین روز تک صبح پانچ بجے سے شام 6 بجے تک کرفیو نافذ ہو گا۔
صوبے کے حالات کو بے قابو ہوتا دیکھ کر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی اختلافات اپنی جگہ، علاقے میں امن کے لیے وفاقی حکومت ایف سی کے پلاٹونز فراہم کرے، گرینڈ جرگہ مکمل امن کے قیام تک علاقے میں رہے، صوبائی حکومت ہر ممکن سپورٹ فراہم کرے گی۔ جو لوگ علاقے میں امن خراب کر رہے ہیں مقامی کمیونٹی ان کی نشاندہی کرے۔ فریقین کے درمیان نفرت کی فضا کو ختم کرنے کے لیے مقامی عمائد اپنا کردار ادا کریں۔ علاقے میں لوگوں کے پاس موجود بھاری اسلحہ جمع کیا جائے جبکہ سرحدی علاقے کے لوگوں کے پاس موجود اسلحہ بھی امانتاً جمع کیا جائے۔
دوسری جانب، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کے یوم تاسیس پر اپنے خطاب میں کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کا قیام صوبائی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے، لیکن جب پاڑا چنار میں لاشیں گر رہی تھیں تو اس وقت وہاں کی حکمران جماعت وفاق پر چڑھائی کر رہے تھے۔ آج بھی وہ حالات بہتر کرنے کے بجائے صوبائی اسمبلی میں کھڑے ہو کر وفاق پر گولیاں چلانے کی بات کر رہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاڑا چنار میں 100 سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن وہ اسلام آباد میں 100 لاشیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی کام ہے کہ اپنے لیڈر کو جیل سے نکلوانا اور کیسز ختم کرنا ہے۔
خیبر پختونخوا میں صورتحال واقعی بہت افسوس ناک ہے اور اس صورتحال یہ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت مسائل کے حل پر توجہ دینے کی بجائے وفاقی حکومت کے ساتھ رسہ کشی میں الجھی رہنا چاہتی ہے۔ صوبے کے وسائل پی ٹی آئی کے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے بے دریغ استعمال کیے جارہے ہیں۔ علی امین گنڈا پور شاید یہ بات سمجھ نہیں پا رہے کہ ان کا عہدہ اور صوبے کے وسائل خیبر پختونخوا کے عوام کی امانت ہیں۔ اگر وہ مسائل حل کرنے کے لیے مثبت کردار ادا نہیں کرسکتے تو انھیں اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں، وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ خیبر پختونخوا کے سنگین حالات سے بے نیاز نہ رہے بلکہ جہاں بھی صوبائی حکومت کو مسائل حل کرنے کے لیے تعاون کی ضرورت ہے فوری طور پر تعاون کیا جائے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ خصوصی طور پر ضلع کرم کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور مقامی قیادت و عمائد کو مل کر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ وہاں لگی ہوئی آگ پر جلد قابو پایا جاسکے۔