بھارت طالبان نئے تعلقات: بدلتا ہوا سفارتی رخ

بھارت نے ہمیشہ افغانستان میں طالبان حکومت کے حوالے سے سخت موقف اپنایا اور اسے کھل کر بین الاقوامی فورمز پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ طالبان کی حمایت میںسخت گیر مؤقف اور اس کی حمایت نہ کرنے کی حکمتِ عملی عالمی سطح پر واضح رہی ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جو اس کی پچھلی حکمتِ عملی کے برعکس نظر آتی ہے۔جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالا، تو بھارت نے اس پیش رفت پر کھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔ بھارتی حکومت نے نہ صرف طالبان کے اقدامات پر تنقید کی بلکہ امریکہ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے افغانستان کی حکومت کو طالبان کے حوالے کر دیا۔ اس دوران بھارت نے نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (NRF) کی حمایت کی اور افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے۔ امراللہ صالح طالبان کے سخت ناقد تھے، اور بھارت کے ساتھ ان کے قریبی روابط نے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کی۔بھارت نے اکثر افغان عوام کو طالبان کے مترادف قرار دیتے ہوئے ان کے حوالے سے ایک منفی بیانیہ اپنایا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھارت نے افغانستان کو ایک غیر مستحکم ملک کے طور پر پیش کیا اور بیانیہ پیش کیا کہ طالبان کی حکومت کے ہونے سے خطے میں دہشت گردی کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ رویہ افغان عوام اور طالبان دونوں کے حوالے سے بھارت کی جانب سے اپنائے گئے سفارتی مؤقف کو ظاہر کرتا ہے۔حالیہ دنوں میں بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ محدود رابطے قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ قدم شاید بھارت کی اس کوشش کا حصہ ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرے اور خطے میں اپنی موجودگی کو مضبوط کرے۔ تاہم، یہ تعلقات نہایت احتیاط سے قائم کیے جا رہے ہیں، اور ان کا مقصد اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ معلوم ہوتا ہے۔بھارت کا طالبان کے ساتھ مکمل اتحادی بننا شاید ممکن نہ ہو کیونکہ ماضی کے تلخ تجربات اور طالبان کے حوالے سے بھارتی حکومت کے سخت مؤقف کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔بھارت اور طالبان حکومت کے تعلقات کا سفر ایک پیچیدہ سفارتی عمل ہے جس میں دونوں فریقوں کے لیے بہت سے چیلنجز اور مواقع موجود ہیں جو کہ پاکستان کی مدد کے بغیر حل ہونا ناممکن ہیں۔ اگرچہ بھارت نے طالبان حکومت کے حوالے سے سخت مؤقف اپنایا ہے، مگر بدلتے ہوئے حالات میں تعلقات کی نئی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں جبکہ پرانے زخم ابھی ہرے ہیں۔ تاہم، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ تعلقات کس حد تک مستحکم ہو سکتے ہیں!!

ای پیپر دی نیشن