لفظوں کا حساب لگانے کو نہ کبھی ضرورت استاد کی ہوگی

Dec 02, 2024

غزل میر

کل رائے چھپانا سیکھا تھا اپنی، آج ترازو خرید لائی ہوں میں 

تعلیم پاکستان میں سب کے لیے ایک حق نہیں ہے۔ غریب جو کھانے کے لیے کافی کمائی نہیں کر سکتے اپنے بچوں کوسکول نہیں بھیجتے کیونکہ انہیں اپنے خاندان کو کھلانے کے لیے آمدنی حاصل کرنے میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے،جو لوگ اپنے بچوں کو سکول بھیج سکتے ہیں انہیں ایسے سکول کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جہاں استاد ہائی سکول سے نکلا ہوا ہو۔ بچوں کو پڑھانے کے بجائے زیادہ تر یہ استاد بچوں کو مارنے کا عمل اختیار کرتے ہیں ان سکولوں میں زیادہ تر بچے کچھ نہیں سیکھتے اور انہیں جاری تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہے، پھر مدرسے ہیں۔ یہ جگہیں غریب بچوں کے لیے ایک آپشن ہیں جو تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتے، اور وہاں سے نکلنے والے کیسز عجیب ہوتے ہیں۔ بہت سے بچوں کو یہ جسمانی نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں اگر وہ کچھ غلط کریں۔ اس کی بہت موجودہ مثالیں ہیں  یہ ایک حقیقت ہے کے تعلیم مہنگی ہے، اور غربت کی وجہ سے سب لوگ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، والدین اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیجتے ہیں، جہاں اکثر   مولوی خود پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور سخت طریقو ں سے بچوں کو ہینڈل کرتے ہیں? پاکستان میں پچھلے سالوں سے ایک ہی چیز بار بار سکھائی گئی ہے۔ دنیا ترقی کر رہی ہے لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان اپنی کتابیں بھی نہیں بدل سکتا تو وہ اپنے آپ کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو کیسے بدل سکتا ہے؟۔ پاکستان میں توجہ زیادہ تر درجات پر ہے بجائے کردار اور آداب کے،کتابوں کا مواد ایک جیسا ہوتا ہے کیونکہ بعض موضوعات پر لکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔تعلیمی مواد میں جدت کی کمی ہے۔آج کے دور کے مطابق نصاب کی تعلیم کے نظام کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کے موجودہ نصاب زیادہ تر پرانے اصولوں اور معلومات پر مبنی ہے جو تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، اور مصنوعی ذہانت کے مطابق نصاب کو اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، موجودہ نصاب میں تخلیقی سوچ کی کمی ہے جس کے باعث طلبہ زندگی کے حقیقی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں،پاکستان کے تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ زیادہ تر نصاب رٹنے اور یاد کرنے پر مبنی ہے، جس سے طلبہ صرف امتحانات کے لیے تیاری کرتے ہیں، لیکن مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کے لیے خود سوچنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ اساتذہ بھی ان طریقوں کا استعمال نہیں کرتے، جس کی وجہ سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں کمزور رہتی ہیں۔ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ملک ترقی یافتہ دنیا سے پیچھے رہ گیا ہے۔ تحقیق و ترقی پر کم سرمایہ کاری، معیاری تعلیمی اداروں کی کمی، اس کی وجہ سے نوجوانوں کی صلاحیتیں سہی طریقے سے ڈوِلوپ نہیں ہوتیں ہیں۔پاکستان میں تعلیمی نظام کا ایک بڑا مسئلہ یونیفارم بھی ہے۔پاکستان میں  یونیفارم کا ایک نقصان یہ ہے کہ یہ والدین کے اخراجات بڑھا دیتی ہے، خاص طور پر ان خاندانوں کے لیے جو پہلے ہی تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں مشکل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہر سکول کی الگ یونیفارم ہوتی ہے جسے خریدنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ،  یونیفارم طلبہ کی اپنی پسند کا اظہار محدود کر دیتی ہے، جس سے ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو دب جاتے ہیں۔ سرکاری، اور دینی مدارس کے درمیان واضح فرق کی وجہ سے طلبہ  میں بھی ایک فرق بلکہ درجہ بندی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں یونیفارم کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں مقابلے اور تقسیم کا رجحان بڑھتا ہے۔ مہنگے اور منفرد یونیفارم بہتر سکولوں کی پہچان بن چکے ہیں، جس سے امیر اور غریب طلبہ کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں، تعلیم کے بجائے طلبہ کے لباس اور حیثیت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، جو بچوں میں احساسِ کمتری پیدا کرتی ہے۔ یہ صورتحال برابری کے اصولوں کے خلاف ہے۔اخلاقی اور سماجی تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی  کے لیے ضروری ہے۔ اخلاقی تعلیم نوجوانوں میں دیانت، ایمانداری، اور احترام جیسی خوبیاں پیدا کرتی ہے، جو ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کی بنیاد ہیں۔ سماجی تعلیم سے طلبہ میں تعاون، رواداری، اور دوسروں کی رائے کو سمجھنے کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں شاگرد کے لیے استاد کی عزت کے رشتے کے بارے میں تو ہم سنتے ہیں، لیکن اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو طلبا کو ان کے کردار کے لیے عزت دے، اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو ان طلبا سے مایوس نہ ہو جن کے نمبر کم ہوں یا جن کی توجہ مختصر ہو۔ اور افسوس کے ساتھ یہ بات کرنی پڑتی ہے کہ ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو عورت اور مرد میں فرق نہ کرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد اور عورت میں فرق کیا جا تا ہے  اس فرق کا اثر مرد پر بھی ہو تا ہے۔یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ غریب گھرانے میں لڑکی کا پیدا ہونا کیا معنی رکھتا ہے، خوشی تو دور کی بات ہے ، ہم یہ اکثر سنتے ہے کہ ماں باپ کیلئے لڑکی کا ہو نا ایک بو جھ بن جا تا ہے۔ لڑکیوں کو کم پڑھانا، انہیں جلدی اپنے گھر بھیجنا، کم عمری میں شادی کر دینا، صرف گھر گرستی سیکھانا یہ سب اس کو ایک کمزور انسان بنانے کی طرف دھکیلتے ہیں، اس کے باوجود عورتیں ایسے معاشرے میں ملازمت بھی کرتی ہیں، ملازمت کرنے کیلئے گھر گرستی نہیں بلکہ تعلیم ضروری ہے، ایک انسان کو اتنا کمزور بنانے کے بعد اخراجات پورے کرنے کیلئے آخر میں اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ویسی ہی جگہ جائے جہاں اس کی قدرنہیں کی جاتی، ان دفاتر میں جہاں زیادہ ترمرد ہیں،وہ انسان ہیں جن کی پیدائش پر ماں باپ کا سر فخر سے اٹھ گیا تھا،  ان کے ساتھ ایک ایسے انسان کو کھڑا کردیا جاتا ہے جسے کمزور بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہو اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اتنا ہی اچھا کام کر پائے گی۔صرف یہ ہی نہیں اس کو وہاں بھی کمزور ہی مانا جاتا ہے اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھانا آسان تو کیا، ایک روایت بن چکی ہے۔ اگر عورت غیر تعلیم یافتہ ہو اس کو نہ پڑھانے کا نتیجہ کسی کے برتن اور کپڑے دھونا ہو تو اس کی حفاظت کون کرے گا؟ اس موضوع پر مگر اکثر بات چیت کرتے ہیں ہم۔ حفاظت تو خیر دور کی بات ہے، اس کے زندہ بچنے کے امکانات بہت کم ہونگے۔ لیکن اپنی حفاظت کرنے کا اختیار اسے نہ پڑھا کر بہت پہلے چھینا جا چکا تھا۔ مرد عورت کی حفاظت کرے گا یہ ایک نہایت ہی بے وقوفانہ سوچ ہے کیونکہ یہ عورتوں کو ایک ایسی جگہ لاکر کھڑا کردیتی ہے جہاں وہ مرد کے بغیر کمزور نظرآتی ہیں، کوئی بھی غیر تعلیم یافتہ اپنے اخراجات پورے کرے اور وہ بھی روزانہ کی بدتمیزی برداشت کرنے پر اس کا وہی حال ہوگا جو آج عورت کا پاکستان میں افسوسناک طور پر ہے۔اور پھر ایسے گھرانے بھی ہیں جہاں عورت کمزور نہیں ہے۔ اس کی پیدائش  پر ماں باپ نے خوشی منائی ہے، اس کو بہت پڑھایا، ایک کامیاب انسان بنانے کے بعد وہ پھر بھی کامیاب نہ ہوئی، کیونکہ معاشرے کا سچ جانتے ہوئے اس کا ملازمت کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا اور ماں باپ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کام کے تجربے کیلئے ایسی جگہ جائے جدھر اس کوکمزور ہی سمجھا جائے گا۔آخری بات یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف کتابیں پڑھانا نہیں ہونا چاہیے بلکہ بچوں کی شخصیت اور کردار کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام ہونا چاہیے جو تخلیقی سوچ اور اچھے اخلاق کو فروغ دے۔ پاکستان کو ایک ایسا نصاب چاہیے جو بچوں کو دنیا کے مسائل  کے لیے تیار کرے۔ اسی طرح پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال معاشرہ بن سکتا ہے۔
تہذ یب وہی ہے وہی زمانہ ہے
بدلتی جا تی یہ دنیا مگر روزانہ ہے
 نہ جانے کتنی صدیوں کے بعد بد لے گا
یہ سلسلہ کہ جو جانا پہچانا ہے
انسان کی رنگت کا فرق کچھ بھی نہیں
انسانیت کیا ہے یہی پڑھانا ہے
ملی جنھیں ہے ناانصافی کی ڈگر ی یہاں
انہیں انصاف کا قر ض یہاں چکانا ہے
کب سمجھیںگے کہ دنیا ایک جیسی  ہے
ماننے والوں نے بھی گزر جانا ہے
ظالموں کی پہچان کیسے کریں گے
خدا کو جو یہاں سب نے مانا ہے
 ہے سچ کہ ڈرتی ہو ں ہر پل میں غزل
قلم کو یہاں احتیاط سے اٹھانا ہے

مزیدخبریں