سیاسی جماعتوں کی اختیارات اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کی جانے والی من مانیوں اور نادانیوں نے ملک کو تختہ مشق بنا رکھا ہے اور عوام ان سیاسی بازیگروں کی سیاسی جنگوں میں استعمال ہونے والی سواری بن کر رہ گئے ہیں۔وہ بھی ایسی کہ بوقت ضرورت استعمال کے لیے جس کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ عنان حکومت سنبھالتے ہی مہنگائی کے چھانٹے برسا کر چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور فریاد بھی کوئی نہیں سنتا الٹا تاکید کی جاتی ہے کہ ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہے لہذا قربانی دینی ہونگی۔۔ لیکن جونہی زیر عتاب آتے ہیں تو مسیحائی کا لبادھا اوڑھ کر پھر عوام کے دست نگر ہو جاتے ہیں اور پیار و محبت سے پچھاڑ کر پھربھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے لگتے ہیں اور عوام جو کہ اسی سوچ میں گم ہوتے ہیں کہ ’’ابن مریم ہوا کرے کوئی ، میرے دکھ کی دوا کرے کوئی ‘‘ چپ چاپ آگے لگ جاتے ہیں پھر تاج وتخت کو بے گناہ غریبوں کی بلی دان کی جاتی ہے اور سردار اعظم اس پر براجمان ہو جاتے ہیں۔چھہتر برسوں سے یہی تماشا چل رہا ہے۔نہ عوام کوحقیقی مسیحا ملا اور نہ ہی وہ منزل ملی جس کا خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا
موجودہ صورتحال کی کوئی بھی توجیح بیان کی جائے سچ تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جنگ نے پورے ملک کا حلیہ بگاڑرکھا ہے اور ملکی نظام کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔پوری دنیاہمارے طرز حکومت پر طنز کر رہی ہے اور ہماری دینی تربیت پر بھی سوال اٹھا رہی ہے لیکن ہمیں کوئی فکر نہیں کیونکہ طاقت اور حکومت کا نشہ کچھ سوچنے اور سمجھنے ہی نہیں دیتا تبھی بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا۔۔
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
یہ نشہ ہی تو ہے کہ 26 نومبرکی رات ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آنے والے نہتے پاکستانیوں کو بھگانے کے لیے جارحانہ اور سفاکانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ وزیر داخلہ کے جارحانہ بیانات توسوالیہ نشان ہی تھے لیکن گمان تھا کہ بحیثیت مسلمان اس حد تک کوئی کیسے جا سکتا ہے کہ عام آدمی کے لیے ملک دشمنوں جیسے اقدامات کرے جبکہ ان کا مقصد انتشار و افراتفری نہیں بلکہ اپنے اس لیڈر کی بازیابی ہو ،جو کہ سیاسی انتقامی سیاست کا شکار ہو۔۔ مگر۔ پھر اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔۔وہی اندھیرا اب وطن عزیز کے ماتھے کا جھومر بن گیا ہے ! ’’قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستین ، اس کو خبر نہیں ہے کہ لہو بولتا ہے ‘‘ درحقیقت اصل ماتم تو ماتم ختم ہونے کے بعد ہوتا ہے۔۔ ایسے آپریشن تو آمرانہ دور میں بھی نہیں دیکھے گئے ، زیادہ سے زیادہ آنسو گیس کے شیل ، واٹر کینن سے پانی یا پولیس کو گرفتاری کے احکامات تھے مگر اب تو پی ٹی آئی قیادت کے مطابق سیدھی گولیاں چلا دی گئیں اور جب صحافیوں نے زخمیوں اور شہادتوں کے اعدادو شمار مانگے تو الٹا انھیں مجرم بنا دیا گیا بلکہ جھوٹے مقدمے میں گرفتاری بھی ہو گئی۔ سوال تو یہ ہے کہ حکومت نے از خود اعدادو شمار جاری کیوں نہیں کئے اور ایک بھی گولی چلی تو کیوں چلی اور کس قانون کے تحت چلی جبکہ احتجاج آئینی حق تھا اور اس احتجاج میں خواتین ، بچے ، بزرگ اور جوان سب شامل تھے۔سیاسی اختلافات ، ہٹ دھرمیاں اور شر انگیزیوں کے قصے اپنی جگہ ،ایسی سنگدلی اور سفاکیت دکھانے کی ہمت کہاں سے آئی ؟ مظاہرین کو راستے میں کیوں نہیں روکا گیا جبکہ پورا ملک اورمواصلاتی نظام بند تھا ؟ یہ کیسی منصوبہ بندی تھی کہ گلے لگا کر چھرا گھونپ دیا گیا ؟ ایسی کیا مصلحت تھی کہ صبح کا انتظار نہیں کیا گیا ؟ اس ملک نے ایسے کئی دھرنے ، احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس دیکھے تھے جن میں ڈنڈوں کا استعمال اور اشتعال انگیزیاں بھی دیکھی گئیں ہیں پھر بھی وقت کے حاکموں نے مذاکرات کے ذریعے بحرانوں کا حل نکالا تھا ،پھر ایسی جلد بازی کیوں دکھائی گئی جبکہ مظاہرین میںصرف ایک صوبے سے تھے ؟ برسر اقتدار کے پاس بحرانوں سے نپٹنے کی اہلیت نہیں یا وہ انتقامی سیاست کا ہی بیڑہ اٹھا چکے ہیں کیونکہ گذشتہ ایک برس سے ساری حکمت عملیاں ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر کی جارہی ہیں جن پر کرتا دھرتا کو کوئی ندامت بھی نہیں ہے جو کہ المیہ ہے۔بایں وجہ آج ہر کس و ناکس سوچنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ موجودہ حکومت کے نزدیک عوام کی اہمیت کیاہے کیونکہ قتل بے شک ایک ہی کیوں نہ ہوا ہو ، اس کی مذمت اور افسوس ہونا چاہیے لیکن جس طرح وزیر و مشیر قہقے لگاتے ہوئے مظاہرین کے بھاگنے پر عجیب و غریب بیانیے دا غ رہے ہیں یقینا انھوں نے بھلا دیا ہے کہ اللہ جسے اختیار دیتا ہے اس کا حساب بھی سخت رکھتا ہے جو کہ دنیا میں شروع ہو جاتا ہے اور بے حسی اس کا نقطہ آغاز ہے
سچ تو یہ ہے کہ 8 فروری کو بزور طاقت عوامی مینڈیٹ کو جس ڈھٹائی سے بدلا گیا، اس نے بد امنی کو ہوا دے دی ہے اور اب حکمران اتحاد مسلسل غیر آئینی اقدامات میں اپنی بقا ڈھونڈ رہا ہے۔عدالتی ترمیم اور اب ’’سانحہ ڈی چوک ‘‘نے تاریخی اوراق کو سیاہ کر دیا ہے۔۔مجھے کہنے دیجیے کہ اسی طرح پی ٹی آئی قیادت نے بھی اپنے حوصلے بہت بلند کر لیے تھے ، تب بھی میں نے لکھا تھا کہ جلد انجام کو پہنچ جائیں گے اگر حد میں نہیں رہیں گے اور پھر وقت کی گھڑیوں نے دیکھا بلکہ سبھی دیکھ رہے ہیں۔۔وہ وقت بھی گزر گیا اور یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔ہٹ دھرمیوں ،من مانیوں اور نادانیوں کا عرصہ کتنا طویل ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کیونکہ خان صاحب روایتی ڈیل نہیں ڈھیل چاہتے ہیں اور اگر انھیں ڈھیل دی گئی تو وہ کسی کو ڈھیل نہیں دیں گے اسی خدشے نے بر سر اقتدار کو لپیٹ لیا ہے
بہرحال برسر اقتدار اور برسر پیکار کی یہ جنگ ملک و قوم کو کہاں لیجاتی ہے فی الفور کچھ بھی کہنا ممکن نہیں البتہ جو کچھ ہوا ہے: میں نے SM ٹی وی پر شہزادہ عثمان طاہر کے پروگرام سوالات و جوابات میں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ نومبر دسمبر میںپی ٹی آئی مطالبات میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی لیکن احتجاجی ٹف ٹائم دیں گے اور ملک ہلا کر رکھ دیں گے تاہم فیصلہ آئندہ برس ہوگا کہ اگر حکومت نے دور رس حکمت عملیاں اختیار نہ کیں تو جمہوریت (دائرے کا سفر ) ختم ہوسکتا ہے۔نومبر ختم ہوچکا ہے اور پی ٹی آئی خان صاحب کی بازیابی کے لیے 7 دسمبر کو پھراحتجاج کا اعلان کر چکی ہے۔اس اعلان کے ساتھ ہی حکومتی صفوں میں ہلچل شروع ہوگئی ہے اور مواصلاتی رابطے ٹوٹ رہے ہیں۔انٹرنیٹ پر پابندی نے تو آئی ٹی انڈسٹری ہی تباہ نہیں کی بلکہ نوجوانوں کو بھی بیروزگار کر دیا ہے جبکہ بھوک اور ننگ پہلے ہی ناچتے پھرتے ہیں۔ایسے میں عوام کا یکسر متنفر ہونا لازمی ہے اور برسر اقتدار گمان کرتے ہیں کہ بزور قوت کرسیوں پر جمے رہیں گے جبکہ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ مسلسل جبر سے دلوں میں ڈر نہیں رہتے کیونکہ ات خدا داویر ہوندا اے اور اللہ دیکھ رہا ہے۔۔۔