پی ٹی آئی نے کیا کھویا، کیا پایا؟

Dec 02, 2024

شہباز اکمل جندران

اسلام آباد کا ڈی چوک 24نومبر کو سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ پی ٹی آئی نے اس روز بڑی ریلی کی صورت میں ڈی چوک پہنچنے اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی تک وہاں پڑے رہنے (دھرنے) کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد ملک بھر میں ایک ہلچل سی تھی۔ حکومت نے کسی بڑے سانحے سے بچنے کے لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا سے اسلام آباد کی طرف جانے والے تمام راستوں کی کنٹینرز رکھ کر ناکہ بندی کر رکھی تھی جبکہ موٹر وے کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل تھی۔ یہ راستے بند ہونے سے پٹرول کی سپلائی بھی رک گئی تھی۔ جس کے باعث اسلام آباد سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بیشتر پٹرول پمپ بند تھے۔ جس سے ٹرانسپورٹ کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ بیشتر شادیاں، جو زیادہ تر نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں ہوتی ہیں، ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث التواء میں پڑ گئی تھیں۔ میرج ہالوں کے باہر ’’کینسل‘‘ کے بورڈ لگ گئے تھے۔ پورا نظام زندگی مبہوت ہو کر رہ گیا تھا۔

آرٹیکل 245کے تحت اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ جبکہ پنجاب اور اسلام آباد پولیس بڑی تعداد میں اہم پوائنٹس پر پہلے ہی سے مامور تھی۔ رینجرز کے افسر و اہلکار بھی مختلف مقامات پر ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔ پارلیمنٹ ہائوس اور دیگر سرکاری عمارتوں کی کڑی نگرانی کی جا رہی تھی تاکہ کوئی شرپسند انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ سیکورٹی فورسز کے کئی چاق و چوبند دستے ان کی حفاظت کے لیے ڈیوٹی پر مامور تھے۔
ہر نظر ڈی چوک پر مرکوز تھی۔ مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا ڈی چوک پر ہونے والی ہر موومنٹ کو فوکس کئے ہوئے تھا۔ ڈی چوک کے مناظر کیمرے کی آنکھ سے پورے ملک میں دیکھے جا رہے تھے۔ کیا ہو گا، کیا ہونے والا ہے؟ سب کے ذہنوں میں بس یہی ایک سوال منڈلا رہا تھا۔ بہت سے تجزیہ کار اس وقت نجی ٹی وی چینلز کے سٹوڈیوز میں براجمان اپنی اپنی دانست اور صوابدید کے مطابق موجودہ صورت حال پر روشنی ڈال رہے تھے اور اس تناظر میں میزبان کے پوچھے گئے سوالوں کے جواب بھی دے رہے تھے۔ کچھ کا جھکائوکسی ایک خاص جماعت کی طرف تھا جس سے اُن کی اس خاص جماعت کے لیے ’’جانبداری‘‘ واضح اور صاف محسوس ہوتی تھی۔ ہر بدلتا منٹ اور سیکنڈ لاکھوں دلوں کی دھڑکنیں تیز کر رہا تھا۔ حکومتی ایوانوں میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ خیبر پختونخوا سے برآمد ہونے و الا پی ٹی آئی کا احتجاجی جلوس وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں خراماں خراماں اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ٹی وی کیمرے جلوس کے مناظر ’’لائیو‘‘ دکھا رہے تھے۔رپورٹر رپورٹ کر رہے تھے کہ جلوس کتنا چارج ہے۔ اُس میں کتنے لوگ ہیں۔ جلوس اس وقت کہاں پہنچا ہے جبکہ اسلام آباد میں کب تک اُس کی آمد متوقع ہے۔
ڈی چوک ___ایک بڑا عوامی چوک ہے۔ جو اسلام آباد میں جناح ایونیواور شارع دستور کے سنگم پر واقع ہے۔ کئی اہم سرکاری عمارتیں ڈی چوک کے قریب واقع ہیں۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس، پارلیمنٹ ہائوس اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی ڈی چوک کے نشیب و فراز میں ہیں۔ اس لیے کئی حوالوں سے ڈی  چوک کی تاریخی اہمیت ہے۔ قریباً دو دہائیوں سے کئی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے ’’ڈی چوک‘‘ کو اپنی احتجاجی ریلیوں اور سرگرمیوں کا محورو مرکز بنا رکھا ہے۔ کسی سیاسی جماعت کو جلوس نکالنا ہو، احتجاج کرنا ہو، احتجاج یا دھرنے کے لیے ڈی چوک کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے۔ ڈی چوک کے انتخاب کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں احتجاج کرنے یا دھرنا دینے سے اسلام آباد ہی نہیں، پورے ملک کا نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ 
پی ٹی آئی کی حکمت عملی بھی کچھ اس طرح کی ہی تھی کہ ڈی چوک پہنچ کر حکومت کو مفلوج کر دیا جائے تاکہ اڈیالہ سے بانی کی رہائی ممکن ہو سکے۔ تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود پی ٹی آئی مْصر تھی کہ انہیں ہر حال میں ڈی چوک پہنچنا ہے۔ پی ٹی آئی کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ انہیں اُن کا چھینا گیا انتخابی مینڈیٹ واپس دیا جائے۔تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کو واپس کیا جائے تاکہ سپریم کورٹ کا موجودہ سیٹ اپ تبدیل ہو سکے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان بن جائیں۔
انسان سوچتا بہت کچھ ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ سب کچھ اُس کے اختیار میں نہیں۔ پی ٹی آئی کا خیال تھا بانی کی کال پر 24نومبر کو پورا پاکستان گھروں باہر نکل آئے گا۔ صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں، سندھ اور پنجاب سے بھی کارکن اتنی بڑی تعداد میں نکلیں گے اور ڈی چوک پہنچیں گے۔ اور وہاں لاکھوں لوگ جب جمع ہوں گے تو حکومت کو رخصت ہونا پڑے گا۔ 25نومبر کا سورج اُن کے لیے فتح و کامرانی کی نوید لے کر آئے گا۔
مگر کسی کے سب خواب کب، کہاں پورے ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور سیکورٹی فورسز کی اعلیٰ کمان نے 24نومبر کے لیے طے کر لیا تھا کہ پیش آمدہ حالات سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے۔ وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان چاہتے تھے اسلام آباد کی سڑکوں پر خون نہ بہے۔ سب کوشش میں تھے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین کسی طرح مذاکرات شروع ہوں اور سب کچھ بہت ہی خوش اسلوبی سے طے ہو جائے۔ اڈیالہ میں پابند سلاسل بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی کے اہم عہدیداروں کو جیل بھیجا گیا۔ پیش کش کی گئی اگر احتجاج ملتوی نہیں کرنا چاہتے تو اسلام آباد کے باہر سنگجانی کے مقام پر جلسہ کر لیں۔ دھرنا دینا ہے تو دھرنا دے لیں۔ اسلام آباد نہ آئیں۔کیونکہ یہاں غیر ملکی سفارت کار ہیں۔ بیلا روس کے صدر بھی 24اور 25نومبر کو وفد کے ہمراہ اسلام آباد میں موجود ہوں گے۔ مگر بانی نے یہ حکومتی پیشکش قبول نہ کی۔ بانی پی ٹی آئی جو بہت ضدی اور انا پرست ہیں۔ بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف سے یہی کہا کہ احتجاج ہو گا تو صرف ڈی چوک میں ہو گا۔
بانی کو قویٰ یقین تھا اُن کی کال پر سارا پاکستان گھروں سے نکل آئے گا۔ لاکھوں لوگ جب سڑکوں پر ہوں گے تو بنگلہ دیش جیسی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ حسینہ واجد کی طرح میاں شہباز شریف کو بھی حکومت چھوڑنی پڑے گی۔ حالات اتنے نازک ہوں گے کہ شاید انہیں ملک ہی چھوڑنا پڑ جائے۔ مگر 24اور25نومبر کو ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ اگرچہ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کو ڈی چوک تک رسائی ضرور حاصل ہوئی تاہم رات کے پچھلے پہر جب پولیس اور رینجرز نے مشترکہ آپریشن کا آغاز کیا اور احتجاجیوں کو گھیرے میں لے کر آنسو گیس کی زبردست شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی تو اس وقت پورا اسلام آباد اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس موقع پر لوگوں کو اپنی گاڑیاں تک چھوڑ کر یہاں سے دیوانہ وار بھاگتے دیکھا گیا۔ جبکہ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی نے بھی راہ فرار اختیار کی اور بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ جس بڑے ہجوم کے ساتھ وہ یہاں آئے تھے اُسے سیکورٹی فورسز کے حوالے کر کے خود ڈی چوک سے رفو چکر ہو گئے۔ تمام حالات کا عمیق جائزہ لیا جائے تو اس موومنٹ کا زیادہ سیاسی نقصان پی ٹی آئی کو ہوا۔ ساکھ کھو دی، سارا بھرم بھی گنوا دیا۔ 25نومبر کی رات ساری پی ٹی آئی خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی ۔ شاید آنے والا وقت بانی پی ٹی آئی کے لیے اور بھی مشکل ہو۔

مزیدخبریں