مولانا صوفی فضل احمد

آپ 1906ء میں نور پور تھل، خوشاب میں میاں ملوک علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک علم دوست اور عارف باللہ بزرگ تھے۔ آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا اور حافظ نامدار اور مولانا حافظ میاں محمد سے صرف سات ماہ میں حفظ کی تکمیل کی۔ مقامی علماء سے ابتدائی درسی تعلیم کے بعد کچھ عرصہ نور پور تھل میں ہی تدریس کی پھر کبیر والا میں کسب علم کے بعد 1924ء میں جامعہ فتحیہ اچھرہ تشریف لائے۔ یہاں مولانا محمد ابراہیم، مولانا حبیب اللہ، مولانا حافظ محمد حسین اور مولانا محمد چراغ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ جامعہ فتحیہ سے فراغت کے بعد آپ نے اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل اور مولوی فاضل کے امتحانات اعزازی حیثیت سے پاس کیے۔ اورینٹل کالج میں آپ کے اساتذہ میں مولانا کریم بخش، مولانا ابو محمد احمد اور مفتی عبداللہ ٹونکی قابل ذکر ہیں۔یہاں سے فراغت کے بعد آپ نے سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے او ٹی کی تربیت حاصل کی۔
دینی و عصری علوم میں دسترس کے بعد آپ کا تقرر انجمن حمایت اسلام ،لاہور کے تعلیمی اداروں السنہ الشرقیہ کے استاد کے طور پر ہوا۔ آپ نے کچھ عرصہ اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ میں تدریس کی ، پھر وطن اسلامیہ ہائی سکول برانت روڈ میں تعینات ہوئے اور وہیں 1966ء تک نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد ملازمت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔ درس و تدریس کے دوران ہی آپ نے جامع مسجد نور بیرون موری گیٹ میں فی سبیل اللہ خطابت کا سلسلہ شروع کیا جو بلا تعطل 37 برس تک جاری رہا۔پھر جب اپ نے اپنے شیخ صاحبزادہ حافظ محمد عمر بیربل شریف کے نام سے موہنی روڈ پر مسجد عمر تعمیر کروائی تو وہاں خطابت کے فرائض کی انجام دہی شروع ہو گئی جو تا دم واپسیں جاری رہی۔
آپ اوائل عمری میں دوران تعلیم ہی عشق حقیقی کی جستجو میں لگ گئے اور بہت چھوٹی عمر میں خواجہ غلام حسن سواگ (لیہ) سے وابستہ ہو گئے۔ ان کی آپ پر خصوصی توجہ تھی مراحل سلوک کی تکمیل کے دوران خواجہ صاحب دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ فرما گئے۔ اسی اثنا میں آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے ممتاز بزرگ حضرت احمد گل( پہاڑ پور ،ڈیرہ اسماعیل خان) سے فیض یاب ہوئے۔ 1941ء میں آپ کی جستجو کی تکمیل ہوئی اور آپ میاں شیر محمد شرق پوری کے خلیفہ مجاز صاحبزادہ حافظ محمد عمر (بیربل شریف) سے بیعت ہوئے۔ آپ 1961ء میں ادارہ تصوف لاہور کے قیام پر اس کے پہلے صدر نامزد ہوئے اور ماہنامہ سلسبیل کی ادارت بھی انھی کا مقدر ٹھہری۔
صوفی صاحب ایک جید عالم دین ،کامیاب مدرس، مفسر قران، صاحب طرز ادیب اور باعمل شیخ طریقت تھے۔ ایک کثیر تعداد آپ سے مستفید ہوئی، ان میں سے چند نام درج ذیل ہیں : ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، ڈاکٹر عبدالغنی ملک ،ڈاکٹر محمد عبدالقوی لقمان، مولانا عبدالصمد صارم، حکیم سید امین الدین احمد، حکیم محمد موسیٰ امر تسری ،مولانا عبدالستار خان نیازی، پیر کرم شاہ الازہری، چودھری مظفر حسین، ڈاکٹر محمد رفیع الدین( بانی ڈائریکٹر اقبال اکادمی)۔ آپ نے تحریک پاکستان اور تحاریک ختم نبوت 1953ء اور 1974ء میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ آپ نے تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ جن میں ’انوار الہدیٰ فی سیرۃ المصطفیٰ‘ سرفہرست ہے۔ فی فضل احمد ساری زندگی تحریر و تقریر کے ذریعے خدمت دین کے بعد 14 جمادی الاول 1412ھ مطابق 22 نومبر 1991ء کو واصلِ حق ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن