نعیم مسعود ....
جس طرح کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، ٹھیک اسی طرح کراچی پاکستان کا دماغ ہے، اور لاہور پاکستان کا دل ہے۔ اس طرح کوئٹہ اور پشاور بھی وطن عزیز کے نہایت اہم عضو ہیں گویا ہر شہر اور ہر علاقہ پاکستان کا جسم ہے۔
تھوڑا سا غور کریں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ، ہر صوبے اور ہر شہر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما رونق افروز ہیں اور اسی طرح مذہبی رہنما بھی جلوہ افروز ہیں مگر ان بڑے بڑے اداروں، سیاستدانوں، حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی موجودگی اور تحریکوں کے باوجود پورا ملک خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کراچی، لاہور اور پشاور میں دھماکے معمول بن چکا ہے۔ ایسی نازک صورتحال میں بھی سیاستدان دست و گریباں ہیں۔ قیادتیں دکھائی تو دینی ہیں لیکن نتائج اور حالات کی مرثیہ گوئی یہی پرچار کرتی ہے کہ، وطن عزیز میں قحط الرجال کا عالم ہے… قحط الرجال کا عالم!!
خواہش کو، احمقوں نے، پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بتِ بیداد گر کو میں
دہشت گردی اور لاقانونیت کا بڑا سبب ہمارے سیاستدانوں کی ضرورت سے زیادہ چالاکیاں، عہد شکنیاں، لاپرواہیاں اور تساہل پسندیاں ہیں۔ ہمارے ہاں یہ فیشن رواج پکڑ چکا ہے کہ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے سارا ملبہ امریکہ پر ڈال دیں اور پھر بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندیوں کو ماننے کے بجائے دہشت گردی کے ہر واقعہ پر یہ کہہ دیں کہ نقصان تو بہت بڑا ہونے جا رہا تھا لیکن بڑے نقصان سے بچا لیا گیا ہے…؎
حیراں ہوں، دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو ، تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کر میں
لاہور اور کراچی میں ہونیوالے بم دھماکوں نے مرکز ، سندھ اور پنجاب حکومت کے دعوئوں کو خاک میں ملا دیا۔ بلوچستان کے حالات اپنی جگہ انتہائی خراب ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں اے این پی کے ایک مرکزی رہنما کے گھر پر حملہ ایک ہی دن میں کئی لاشیں خون میں لت پت ہو گئیں۔
حضرت حسینؓ کے چہلم کے جلوس پر لاہور میں بم دھماکے نے تقریباً 15 افراد کو لقمہ اجل بنا دیا اور 60 سے زائد لوگ زخمی ہو گئے۔ اسی طرح کراچی میں ہونیوالے بم دھماکے میں تقریباً 3 افراد شہید ہو گئے اور درجن سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
جانی نقصانات پر پورا ملک غم میں ہے، 25 جنوری کی شام نے پورے ملک کو نوحہ گر بنا دیا لیکن سکیور ٹی فورسز اور حکمران اس بات پر خوش تھے کہ کراچی میں بڑا نقصان نہیں ہوا، لاہور میں پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کر کے ایک بڑے جانی نقصان سے بچا لیا، اور خیبر پختون خواہ میں اے این پی کے مرکزی رہنما زاہد خان بچ گئے۔ نہ جانے یہ کیسے دعوے، کیسی خوشی اور کیسی تسلی ہے؟
تمام سیاستدان جو اسمبلیوں میں ہیں سوائے ق لیگ کے سبھی حکمرانیاں انجوائے کر رہے ہیں۔ یہ سبھی سیاسی رہنما انقلاب کی باتیں کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر میڈیا کے سامنے نمبر بنانے اور عوام کو بے وقوف بنانے میں تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریوں اور فرائض میں انتہائی غیر ذمہ دار اور لاپرواہ ہیں۔ ان دھماکوں نے وہ سارے راز کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیئے ہیں، پولیس، سکیورٹی فورسز، ایجنسیوں اور حکومتی دعوئوں میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔ وہ ہیلی کاپٹروں سے حفاظت، وہ سکریننگ اور انٹیلی جنس کی ساری تیاریاں کہاں ہیں؟
یہ درست ہے کہ لاہور میں پولیس کے چند نوجوانوں نے بڑے نقصان سے بچا لیا لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ دہشت گرد پوری طرح کامیاب ہوئے تھے۔ اپنی اپنی لالچ کی ٹپکتی ہوئی رالوں کو جلا بخشنے کیلئے یہ سارے سیاستدان مصلحت اور مفاہمت کی باتیں کرتے ہیں لیکن دہشت گردی سے بچائو اور ڈرون حملوں کے حوالے سے انکی مفاہمت کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے؟
سیاستدان بھرپور جھوٹ بولتے ہیں، گالی گلوچ تک اسمبلی میں اور تقریروں میں دکھائی دیتی ہے لیکن جب عوام اور میڈیا اس کا نوٹس لیتے ہیں۔ تو فوری ان ’’کارناموں‘‘ کو جمہوریت کا حسن قرار دے دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم والے اگر 90 فیصد غلط حکمت عملیاں رکھتے ہیں اور اسی طرح مرکزی حکومت کے ہاں بھی اگر 70 فیصد کام غلط ہیں تو پنجاب حکومت کے ہاں بھی کم ہی سہی لیکن 60 فیصد تک بدعملیاں اور عاقبت نااندیشیاں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا، ادارے، حکمران، سیاستدان اور سکیورٹی ایجنسیاں دیانت داری اور محنت کو رواج بخشیں سچ کا بول بالا کیا جائے ورنہ دہشت گردی سے لاقانونیت تک حالات اسی طرح ہی رہیں گے کراچی پاکستان کا دماغ ہے اور لاہور دل ہے‘ دہشت گردوں سے بچانا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا فرض ہے۔ دہشت گردوں کے سر نہیں سراغ درکار ہیں۔
جس طرح کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، ٹھیک اسی طرح کراچی پاکستان کا دماغ ہے، اور لاہور پاکستان کا دل ہے۔ اس طرح کوئٹہ اور پشاور بھی وطن عزیز کے نہایت اہم عضو ہیں گویا ہر شہر اور ہر علاقہ پاکستان کا جسم ہے۔
تھوڑا سا غور کریں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ، ہر صوبے اور ہر شہر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما رونق افروز ہیں اور اسی طرح مذہبی رہنما بھی جلوہ افروز ہیں مگر ان بڑے بڑے اداروں، سیاستدانوں، حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی موجودگی اور تحریکوں کے باوجود پورا ملک خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کراچی، لاہور اور پشاور میں دھماکے معمول بن چکا ہے۔ ایسی نازک صورتحال میں بھی سیاستدان دست و گریباں ہیں۔ قیادتیں دکھائی تو دینی ہیں لیکن نتائج اور حالات کی مرثیہ گوئی یہی پرچار کرتی ہے کہ، وطن عزیز میں قحط الرجال کا عالم ہے… قحط الرجال کا عالم!!
خواہش کو، احمقوں نے، پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بتِ بیداد گر کو میں
دہشت گردی اور لاقانونیت کا بڑا سبب ہمارے سیاستدانوں کی ضرورت سے زیادہ چالاکیاں، عہد شکنیاں، لاپرواہیاں اور تساہل پسندیاں ہیں۔ ہمارے ہاں یہ فیشن رواج پکڑ چکا ہے کہ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے سارا ملبہ امریکہ پر ڈال دیں اور پھر بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندیوں کو ماننے کے بجائے دہشت گردی کے ہر واقعہ پر یہ کہہ دیں کہ نقصان تو بہت بڑا ہونے جا رہا تھا لیکن بڑے نقصان سے بچا لیا گیا ہے…؎
حیراں ہوں، دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو ، تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کر میں
لاہور اور کراچی میں ہونیوالے بم دھماکوں نے مرکز ، سندھ اور پنجاب حکومت کے دعوئوں کو خاک میں ملا دیا۔ بلوچستان کے حالات اپنی جگہ انتہائی خراب ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں اے این پی کے ایک مرکزی رہنما کے گھر پر حملہ ایک ہی دن میں کئی لاشیں خون میں لت پت ہو گئیں۔
حضرت حسینؓ کے چہلم کے جلوس پر لاہور میں بم دھماکے نے تقریباً 15 افراد کو لقمہ اجل بنا دیا اور 60 سے زائد لوگ زخمی ہو گئے۔ اسی طرح کراچی میں ہونیوالے بم دھماکے میں تقریباً 3 افراد شہید ہو گئے اور درجن سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
جانی نقصانات پر پورا ملک غم میں ہے، 25 جنوری کی شام نے پورے ملک کو نوحہ گر بنا دیا لیکن سکیور ٹی فورسز اور حکمران اس بات پر خوش تھے کہ کراچی میں بڑا نقصان نہیں ہوا، لاہور میں پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کر کے ایک بڑے جانی نقصان سے بچا لیا، اور خیبر پختون خواہ میں اے این پی کے مرکزی رہنما زاہد خان بچ گئے۔ نہ جانے یہ کیسے دعوے، کیسی خوشی اور کیسی تسلی ہے؟
تمام سیاستدان جو اسمبلیوں میں ہیں سوائے ق لیگ کے سبھی حکمرانیاں انجوائے کر رہے ہیں۔ یہ سبھی سیاسی رہنما انقلاب کی باتیں کرتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر میڈیا کے سامنے نمبر بنانے اور عوام کو بے وقوف بنانے میں تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریوں اور فرائض میں انتہائی غیر ذمہ دار اور لاپرواہ ہیں۔ ان دھماکوں نے وہ سارے راز کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیئے ہیں، پولیس، سکیورٹی فورسز، ایجنسیوں اور حکومتی دعوئوں میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔ وہ ہیلی کاپٹروں سے حفاظت، وہ سکریننگ اور انٹیلی جنس کی ساری تیاریاں کہاں ہیں؟
یہ درست ہے کہ لاہور میں پولیس کے چند نوجوانوں نے بڑے نقصان سے بچا لیا لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ دہشت گرد پوری طرح کامیاب ہوئے تھے۔ اپنی اپنی لالچ کی ٹپکتی ہوئی رالوں کو جلا بخشنے کیلئے یہ سارے سیاستدان مصلحت اور مفاہمت کی باتیں کرتے ہیں لیکن دہشت گردی سے بچائو اور ڈرون حملوں کے حوالے سے انکی مفاہمت کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے؟
سیاستدان بھرپور جھوٹ بولتے ہیں، گالی گلوچ تک اسمبلی میں اور تقریروں میں دکھائی دیتی ہے لیکن جب عوام اور میڈیا اس کا نوٹس لیتے ہیں۔ تو فوری ان ’’کارناموں‘‘ کو جمہوریت کا حسن قرار دے دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم والے اگر 90 فیصد غلط حکمت عملیاں رکھتے ہیں اور اسی طرح مرکزی حکومت کے ہاں بھی اگر 70 فیصد کام غلط ہیں تو پنجاب حکومت کے ہاں بھی کم ہی سہی لیکن 60 فیصد تک بدعملیاں اور عاقبت نااندیشیاں موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا، ادارے، حکمران، سیاستدان اور سکیورٹی ایجنسیاں دیانت داری اور محنت کو رواج بخشیں سچ کا بول بالا کیا جائے ورنہ دہشت گردی سے لاقانونیت تک حالات اسی طرح ہی رہیں گے کراچی پاکستان کا دماغ ہے اور لاہور دل ہے‘ دہشت گردوں سے بچانا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا فرض ہے۔ دہشت گردوں کے سر نہیں سراغ درکار ہیں۔