اگر یہ کہا جائے تو زمینی حقائق اس کی تردیدنہیں کریں گے کہ جن شقوں کے دیانت دارانہ اطلاق کے ذریعے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی چھان بین کا مطالبہ کیا جارہا ہے ¾ ان شقوں کا عملی طور پر اطلاق امریکہ جیسے لبرل اور ” ترقی یافتہ “ ملک میں پہلے سے ہی ہورہا ہے۔ میری مراد آئین کی شق نمبر62اور شق نمبر63سے ہے۔
ہمارے لبرل فاشسٹ ان شقوں کو ایک ” روشن خیال “ معاشرے کیلئے اس وجہ سے زہرِقاتل سمجھتے ہیں کہ انہیں جنرل ضیاءالحق نے آئین میں شامل کرایا تھا۔ سوال یہاںیہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ شقیں واقعی ایک جدید روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرے کے تقاضوں کے منافی ہیں تو اب تک ہماری جمہوری حکومتوں نے انہیں آئین سے خارج کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ اگر جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دور کے بعد آئین میں مزید15 ترامیم ممکن بنائی جاسکتی تھیں تو پھر ایک اور ترمیم کے ذریعے جنرل مرحوم کی اِن باقیات 62)اور(63سے آئین کو ” پاک “ کرنا کیسے مشکل تھا؟
1973ءکے آئین میں ہونیوالی ترامیم کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ اس دوران جو دو فوجی حکمرانیاں قائم ہوئیں ان میںصرف ایک ایک ترمیم کی گئی۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دور میں آٹھویں ترمیم ہوئی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں سترہویں ترمیم ہوئی ۔ پہلی سات ترامیم خود آئین کے خالق بھٹو مرحوم نے کرائیں۔ اسکے بعد آٹھ (8)ترامیم میاں نوازشریف کے ادوار میں ہوئیں۔
جہاں تک موجودہ ” مفاہمتی اور اتحادی “ دور کا تعلق ہے اس میں اب تک 5ترامیم کرائی جاچکی ہیں۔ ان تمام ترامیم کے باوجود اگر جنرل ضیاءالحق مرحوم کی باقیات یعنی شق نمبر62اور شق نمبر63آئین میں موجود ہیں تو اس کی کوئی نہ کوئی معقول وجہ ضرور ہوگی۔
میں نے آغاز میں یہ کہا ہے کہ اِن شقوں کا عملی اطلاق ہمارے ملک میںکبھی ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ¾ امریکہ میں ضرور ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں کے آئین میں اِن شقوں یا اِن جیسی شقوں کا کوئی وجودنہیں مگر اپنے نمائندوں یا اپنے صدور کے انتخاب میں وہاں کے عوام متذکرہ شقوں میں دھڑکتی ” روح“ کا خیال ضرور رکھتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت کرنے سے پہلے میں یہاں متذکرہ دونوں شقوں کے کچھ مندرجات پیش کرنا چاہوں گا۔
شق نمبر62کا تعلق پارلیمنٹ کارکن بننے کی اہلیت کے بارے میں ہے۔ اس کی ضمنی شقوں(a) ¾(b)اور (c)کا تعلق رکنیت کے تکنیکی معاملات سے ہے یعنی رکن کو پاکستان کا شہری ہونا چاہئے ¾ پچیس برس سے کم عمرنہیں ہوناچاہئے ۔ سینٹ کے لئے عمر کی حد تیس برس سے شروع ہوتی ہے۔
جو ضمنی شقیں ” دلِ اہرمن “ میں کانٹوں کی طرح کھٹکتی ہیں وہ ہیں g,f,e,dاور h۔(d)میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے رکن کو اچھے کردار کا حامل ہونا چاہئے اور اس کی شہرت ایسے شخص کی نہیںہونی چاہئے جو اسلامی تعلیمات کی نفی کرتا ہو۔ (e)میں کہا گیا ہے کہ اسے اسلامی تعلیمات کی مناسب آگہی ہونی چاہئے ¾ وہ اسلامی فرائض ادا کرتا ہو اور بڑے گناہوں سے بچتا ہو۔ (f)میں کہا گیا ہے کہ وہ باشعور ہو ¾ صالح ہو ¾ بے راہ رو نہ ہو اور صادق و امین ہو۔(g)میںکہا گیا کہ وہ کسی اخلاقی جرم میں سزا یافتہ نہ ہو اور جھوٹی شہادت دینے کا مرتکب نہ پایا گیا ہو۔ (h)میںکہا گیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اس نے ملکی سا لمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور وہ نظریہ ءپاکستان کا مخالف نہ ہو۔جہاںتک شق نمبر63کا تعلق ہے وہ کسی رکن یا امیدوار کے نا اہل قرار پانے کے بارے میں ہے اور وہ درجنوں ضمنی شقوں پر مشتمل ہے۔
یہاںاِس شق کی تفصیلات میںجانا ضروری نہیںمگر کچھ ضمنی شقوںکا ذکر ہو جاناچاہئے۔ رکن کی دماغی حالت صحیح ہونی چاہئے۔ دیوالیہ قرار پانے والا مقروض نہ ہو۔ اور کسی دوسرے ملک کا شہری نہ ہو۔کیا اِن شرائط ِ اہلیت میں کوئی ایک بھی ایسی ہے جس سے اصولی طور پر اختلاف کیا جاسکتا ہو۔؟ کچھ لوگوں کا موقف یہ ہے کہ اہلیت کی ان شرائط کو غلط طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ کوئی شخص صادق اور امین ہے ؟
جہاں تک شرائط کے غلط استعمال کا تعلق ہے وہ تو ہر قانون غلط طور پر استعمال ہوسکتا ہے ¾ اور ہوتا ہے۔ کیا بے گناہ لوگوں کے خلاف 302کے مقدمات درج نہیں ہوجاتے۔؟ اور کیا ایسے لوگ جنہوں نے حقیقتاً قتل کئے ہوں 302کے مقدمات سے بری نہیں ہوجاتے۔؟ اگر صرف یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ قانون غلط طور پر استعمال ہوگا تو پھر کسی بھی قانون کو رکھنے کا جواز باقی نہیں رہے گااور62کی شق کا تو تعلق ہی پارلیمنٹ کی رکنیت سے ہے۔ وہ ادارہ جو قانون بناتا ہے اور ہمارے نظام میں جس ادارے سے وزیراعظم اور اس کی کابینہ کا انتخاب ہوتا ہے۔
میں نے اوپر اس ضمن میں امریکہ کا ذکر بغیروجہ یا بنیاد کے نہیں کیا۔
دور نہیں جاتے ¾ ہم گزشتہ انتخابات کو ہی سامنے رکھ لیتے ہیں۔ جب انتخابی عمل کا آغاز ہوا تھا تو ڈیموکرٹیک صدر اوباما کے مقابلے کیلئے ری پبلکن پارٹی کے ایک درجن کے قریب امیدوار تھے۔ ان میںپانچ امیدوار مضبوط شمار ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہونے لگی۔ جس جس امیدوار کا کوئی بھی سکینڈل سامنے آیا ¾ یا جس جس کی کسی بھی اخلاقی کجی یا مالی بے ضابطگی کا معاملہ اٹھا‘ وہ خود بخود میدان سے نکل گیا۔ امریکی انتخابات میں یہ بات ممکن ہی نہیں کہ کسی امیدوار کا کوئی اخلاقی یا مالی سکینڈل سامنے آجائے اور وہ مکمل بریّت حاصل کئے بغیر انتخابی عمل میں شامل رہے۔ماضی میں ایسے صدارتی امیدواروں کی مثالیں موجود ہیں جو صرف اعلیٰ ترین اخلاقی معیار پر پورا نہ اترنے کی بناءپر انتخابی دوڑ سے باہر ہوگئے۔ ایک نام اس ضمن میں گیری ہارٹ کا سامنے آتا ہے۔ آپ کو یہ تو معلوم ہوگا ہی کہ سابق صدر کلنٹن کے خلاف سینٹ میں مقدمہ کس جرم میں چلا تھا؟
ہم اپنے حکمرانوں کے کردار پر نظر ڈالیں تو شبہ ہونے لگتا ہے کہ ”کیا ہمارا پاکستان واقعی اسلامی جمہوریہ ہے۔؟“
علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ کا اور کوئی مثبت نتیجہ نکلا ہو یا نہ نکلا ہو ¾ یہ ایک حقیقت ہے کہ 1973ءکے آئین کے ” فراموش کردہ “ ایک کونے میں 62اور63کی جو شقیں کئی دہائیوں سے ہماری توجہ کی طلب گار بنی ہوئی تھیں‘ وہ پوری قوم کی نظروں میں آگئی ہیں۔ اِن شقوں کو جنرل ضیاءالحق کی ” باقیات“ کے زمرے میں ڈالنے سے اب بات نہیں بنے گی۔جو لوگ ان شقوں سے ” خوفزدہ “ ہیں انہیںیہ مشورہ دیا جاناچاہئے کہ وہ قوم کی نمائندگی کرنے کے خواب کو کسی قبرستان میں دفن کردیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شقیں تو پہلے سے ہی آئین کا حصہ ہیں۔ اب اُن کے بارے میں شور کیوں اٹھ رہا ہے ؟ تو جواباً عرض ہے کہ اگر اِن شقوں پر دیانتداری سے عمل ہوا ہوتا تو پارلیمنٹ میں جعلی ڈگریاں رکھنے والے یا پھر ایف بی آر نام کے کسی ادارے سے مکمل ناواقفیت رکھنے والے ”عوامی نمائندوں “کی تعداد سینکڑوں میں نہ ہوتی۔
آخر میں اس سوال کا جواب دیناچاہوں گا کہ کیسے معلوم کیا جائے کہ کون صادق اور امین ہے تو پہلے اس کا ٹیکس ریکارڈ دیکھیں۔ اس کی آمدنی کا جائزہ اسکے لائف سٹائل سے لیں اور اسکے اثاثوں کا موازنہ ان رقوم سے کریںجو وہ ٹیکس کی مد میں ادا کرتا ہے۔ ویسے میں نے بہت کم لوگ زندگی میں ایسے دیکھے ہیں جنہیں عمومی طور پر صادق اور امین نہ سمجھا جاتا ہو ¾ اور وہ فی الواقع صادق اور امین ہوں۔
زبانِ خلق نقارہءخداوندی۔۔۔