نامورشاعر مِیر تقی مِیر کو ۔ ” خُدائے سُخن“۔ کہا جاتا ہے۔ مِیر صاحب نے سُخن کی خُدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا---
” سارے عالم پر ‘ ہُوں مَیں ‘ چھایا ہوُا
مُستند ہے ‘ میرا ‘ فرمایا ہُوا “
مِیر صاحب‘ سیّد تھے۔ اورجب عِشق میں ناکام ہوئے تو یہ اعتراف بھی کر لِیا کہ ---
” پِھرتے ہیں ‘ مِیر خوار ‘ کوئی پُوچھتا نہیں
اِس عاشقی میں ‘ عِزّتِ سادات بھی گئی “
فصیح بُخاری بھی سیّد ہیں۔ اُن کے ساتھ بھی یہی ہُوا۔ چیئرمین نیب کی حیثیت سے وہ خُود کو ” خُدائے آئین“ سمجھ بیٹھے تھے‘ لیکن عاشقی کا پیشہ اختیار کئے بغیر اپنی ” عِزّتِ سادات“ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ بُخاری صاحب‘ ایڈمرل کے منصب سے‘ باعِزّت ریٹائر (سبکدوش) ہُوے اور پنشن یا فتہ بھی ہیں‘ لیکن سپریم کورٹ کے بارے میں ‘ اُنہوں نے خُود کو” اسلام آباد زون “کا حاضر سروس مارشل لا ایڈمنسٹریر سمجھ لیا اور خُود ہی آئین کی تشریح کا فریضہ سنبھال لیا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے دو بار ‘توہینِ عدالت کا نوٹس جاری ہوُا‘ لیکن موصوف ہَوا پر اُڑ رہے تھے‘ لیکن ہَوا کا رُخ نہیں دیکھا۔ صدر زرداری کو‘ شکایتی خط لکھ دِیااور مِیڈیا کے حوالے بھی کر دِیا۔ سپریم کورٹ پر تنقید کے تیر و نشتر چلائے۔ جِس پر سپریم کورٹ نے‘ اُنہیں توہینِ عدالت کا تیسرا نوٹس بھی جاری کردِیا۔ اب موصوف ‘ ملزم کی حیثیت سے‘ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوں گے۔ سیّد یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کی طرح۔ صدر زرداری اور اُن کے سارے وزیر و مُشیر صاحبان ‘ ہزارہا قانونی مُوشگافیوں اور دلائل کے باوجود‘ گیلانی صاحب کی وزارتِ عظمیٰ اور اُن کی قومی اسمبلی کی رکنیت کو نہیں بچا سکے اور آئندہ پانچ سال کے لئے انتخابات میں حِصہ لینے کی ناہلی کوبھی۔ وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف کو سرِ تسلیم خم کرنا پڑا‘ اور وہ توہینِ عدالت کا مُجرم بننے سے بچ گئے۔
جناب فصیح بُخاری‘ وزیرِ اعظم نہیں ہیں۔ ریاستِ پاکستان ‘ بلکہ حکومتِ پاکستان کے ملازم ہیں۔ مختلف جرائم میں ملوّث ملزموں کے خلاف تفتیش کرنا اور مُجرم ثابت ہونے پر ‘انہیں گرفتار کر کے ‘ سزا دِلوانا اُن کا فرض ہے‘ لیکن اُنہوں نے اپنے فرض سے کوتاہی کی۔ جان بُوجھ کر۔ محض اپنے مُحسنوں کو بچانے کے لئے نہیں‘ بلکہ ” گند“ ڈالنے کے لئے۔ اُس قسم کا ” گند“ جو علاّمہ طاہر القادری ڈالنے کے لئے ‘ چھ سال بعد وطن واپس آئے ہیں۔ مقصد ایک ہی ہے کہ --- عام انتخابات کو ملتوی کرایا جائے۔ عوام کے ووٹوں سے اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو پُر امن انتقالِ اقتدار ہوتا دیکھنے کے بجائے ” جمہوریت کے انتقال“ کا بندوبست کیا جائے۔
علاّمہ طاہر القادری نے تو‘ پاکستان واپس آنے سے تین ماہ پہلے ہی اپنا” نُسخہ¿ کِیمیا“ پیش کردِیا تھا کہ ” پاکستان میں عام انتخابات نہ ہوں اور چار سال کے لئے عبوری حکومت قائم کر دی جائے۔ عبوری حکومت ایک بڑا آپریشن کرے اور سیاست اور جمہوریت کے بدن سے سارے ناسُور نکال دے وغیرہ وغیرہ“--- علاّمہ طاہر القادری کے لانگ مارچ سے غریبوں کے لئے ” انقلاب “ تو نہیں آ سکا‘ لیکن اِس بہانے موصوف نے‘ اپنی مدفون پاکستان عوامی تحریک کو‘ زندہ کر لیا۔ اُنہوں نے جِن لوگوں کو گالیاں دی تھیں‘ اور اُن کو اُن کے عہدوں سے برطرف کردِیا تھا‘ اُنہی سے ” میثاقِ جمہوریت دو نمبر“ کر لیا اور چند کلیوں پر قناعت کر گئے۔ اور اب وہ ‘ الیکشن کمِشن آف پاکستان کو تحلیل کرانے ‘ کی آڑ میں‘ عام انتخابات ملتوی کرانے کے لئے ‘سپریم کورٹ میں خُود دلائل دینے کا ارداہ رکھتے ہیں۔
جناب فصیح بُخاری نے‘ صدر زرداری کے نام خط میں‘ سپریم کورٹ پر جو گند اچھّالا ہے‘ صدر زرداری اور اُن کے سارے وزیر اور مُشیر بھی اُسے صاف نہیں کر سکتے۔ وفاقی وزیرِ قانون فاروق ایچ نائیک فرماتے ہیں کہ --- ” اگر چیئرمین نیب کا خط واقعی استعفیٰ ہے تو‘ صدرِ مملکت جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج سکتے ہیں“۔ فاروق ایچ نائیک صاحب! صدر زرداری کو اِس طرح کا مشورہ دے کر ‘ ” کَھل نائک“ (وِلن) بننے کی کوشش نہ کریں۔ یہ بہت ہی خطر ناک کھیل ہو گا!۔ فاروق نائک سینیٹر ہیں۔ اورڈاکٹر بابر اعوان ‘ اعتزاز احسن‘ فیصل رضا عابدی اور وزیرِ خزانہ شیخ حفیظ بھی۔ سینیٹر شپ کسی بھی پسندیدہ شخص کو‘ پارٹی ہائی کمان کی طرف سے ” تُحفہ“ ہوتا ہے۔ سینیٹر‘ براہِ راست عوام کا منتخب نمائندہ نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی عوام کے سامنے جواب دہ۔ اور جب سینیٹر وزیر بن جاتا ہے تو ” باس “ کو خُوش کرنے کی کوشش ہی میں لگا رہتا ہے ۔ عوام جائیں بھاڑ میں۔
جناب فصیح بُخاری تو سینیٹر بھی نہیں اور نہ ہی وزیر‘ لیکن اُن کے پاس وزیروں کو پکڑنے کا اختیار ہے۔ وزیرِ اعظم کو بھی۔ اُنہوں نے سپریم کورٹ کے حُکم پر بھی اپنا یہ اختیار استعمال نہیں کِیا۔ شاید اُن کا دِل‘ رینٹل پاور کرپشن کیس اور توقیر صادق کرپشن کیس کے ملزموں کی بے گناہی کی گواہی دے رہا ہے۔ بقول شاعر---
” دِل ہمارا ‘ گواہی دیتا ہے
استخارہ ‘ گواہی دیتا ہے “
میں نے دُعائے استخارہ نہیںپڑھی‘ لیکن میرا دِل گواہی دیتا ہے کہ جناب صحیح بُخاری پر بہت ہی بُرا وقت آگیا ہے ۔اُن کی چال ناکام ہو گئی۔ اُستاد ذوق کی چال جب ناکام ہوئی تو اُنہوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لِیا تھا‘ جب کہا---
” ہم سا بھی ‘ اِس بِساط پہ ‘ کم ہو گا بدقمار
جو چال ہم چلے ‘ بہت ہی ‘ بُری چلّے “
توہین ِ عدالت کے مقدمے میں‘ بُخاری صاحب کو‘ خُود کو‘ سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہو گا‘ لیکن سپریم کورٹ رحم و کرم کا مظاہرہ‘آئین کے مطابق اور عوام کے مفاد میں ہی کرتی ہے اور اُس نے عوام کے مفاد میں ہی فوجی اور سِول حکام کو خبردار کر دِیا ہے کہ ”آپ صدر زرداری کے نام‘ فصیح بخُاری کے خط کو بنیاد بنا کر‘ کوئی غیر آئینی اقدام نہ کریں“ --- صاف ظاہر ہے کہ ‘اگر غیر آئینی اقدام ہوُا ‘ تو عوام اُسے قبول نہیں کریں گے۔ سپریم کورٹ کو‘ جمہوریت پسند جماعتوں ‘ مِیڈیا‘ وکلائ‘ سِول سوسائٹی اور عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ طاہر القادری ( جِن کو برادرم سعید آسی نے بجا طور پر ” پاکستانی سیاست کی غیر متعلقہ شخصیت “ قرار دِیا ہے)۔ کا ”ڈرامہ¿ انقلاب“ ...باکس آفس پر فلاپ ہو گیا ہے اور اُن کے بعد ‘جمہوریت مخالف قوتّوں کے مُہرے‘ جناب فصِیح بخُاری بھی اب کہِیںکے نہیں رہے۔ ___ بقول حضرت میاں محمد بخشؒ---
” پھَس گئی جان شکنجے اندر ‘ جِیوں ویلن وِچّ گنّا“
کی پوزیشن میں ہیں۔ پراسیکیوٹر نیب مسٹر کے۔ کے آغا نے سپریم کورٹ میں تسلیم کِیا کہ فصیح بُخاری صاحب نے صدر زرداری کے نام خط ۔ Frustration ( مایوسی ‘ ناکامی یا شکستہ دِلی)میں لِکھا ہے۔ اپنے خط میں بُخاری صاحب نے خود اپنے ” ذہنی دباﺅ“ کا ذکر کِیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ موصوف کی Mental Power ( دماغی قوت) لوڈشینڈنگ کا شکار ہو گئی ہے۔ خاص طور پر رینٹل پاور کرپشن کیس کے مِلزموں کی گرفتاری یا عدم گرفتاری کے بارے میں کہ حکمران تو ‘ اُن کے عُشّاق میں شامل ہیں۔ مِرزا داغ دہلوی نے کہا تھا کہ---
” عُشاّق کی کثرت سے ‘ دمِاغ اور ہے اُس کا
ہے جنسِ گراں ‘ جوشِ خریدار کے باعث“
” مَینٹل پاور“--- جناب فصِیح بُخاری کی !
Feb 02, 2013