لیڈر کیسا ہونا چاہیے؟

ٹرین دلی کی طرف رواں تھی۔ قائداعظم اپنے کیبن میں بیٹھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ نے دروازہ کھولا، سامنے مہاتما گاندھی کھڑے تھے۔ قائداعظم نے اندر آنے کیلئے راستہ چھوڑا اور پوچھا مسٹر گاندھی! آپ رات کے وقت میرے پاس کیسے تو گاندھی بولے مسٹر جناح! میں الہ آباد جلسے میں آپ اور پاکستان سے متعلق کچھ زیادہ ہی بول گیا۔ مجھے ایسا نہیں بولنا چاہیے تھا۔ قائداعظم نے کہا مسٹر گاندھی! آپ نے جو کچھ کہنا ہے وہ کل دلی کے جلسے میں عوام کے سامنے کہیے گا۔ میں رات کو چُھپ کر معذرت کرانا یا ڈیل کرنا نہیں چاہتا۔ اب بات عوام کے سامنے ہو گی۔ قارئین! یہ ہوتے ہیں لیڈر جو عوام کی مرضی کے بغیر قدم تک نہیں اٹھاتے مگر چند روز پہلے ایک تگڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بمع دو وفاقی وزیروں کے موجودہ آرمی چیف کو رات کے اندھیرے میں ایک ڈیل کی آفر کرتے ہیں جسے بالکل قائداعظم کے ہی انداز میں چیف آف آرمی سٹاف نے ٹھکرا کر قائد قوم اور فوج سب کی عزت رکھ لی۔سنگاپور کے پہلے وزیراعظم ”لی کون یے وکی“ نے 3 جون 1959ءکو پہلی دفعہ وزیراعظم بن کر اقتدار سنبھالا اور 28 نومبر 1990ءتک وہ مسلسل سنگاپور کے وزیراعظم منتخب ہوتے رہے۔ 1963ءسے لےکر 1965ءملائیشیا کے ساتھ الحاق کے معاملے میںعوام کی ترجمانی کر کے انہوں نے تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا۔ انکے ہی دور میں سنگاپور کو گارڈین سٹی کا نام ملا۔ نیشنل آئرن اینڈ سٹیل مل کا قیام اور نیپٹیون اورینٹ لائن کا منصوبہ، سنگاپور ایئر لائن کی بنیاد اور دو بچوں سے زیادہ پیدا کرنے پر بھاری جرمانے کا قانون پاس کیا اور 91 سال کی عمر تک بھی تھکے نہیں۔ جب سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ 19 مئی 1881ءکو پیدا ہونےوالے مصطفی کمال نے کم عمری میں ہی اپنے وطن کو غیر ملکی تسلط سے بچانے کیلئے جدوجہد شروع کر دی۔ اتا ترک کی خواہش تھی کہ ایک جدید لبرل معاشرہ تشکیل دے۔ اس نے نہ صرف ایک بکھری ہوئی قوم کو متحد کیا بلکہ ترکی کو نیا آئین دیا۔ نیا جدید رسم الخط دیا۔ ذات پات کو ختم کیا اور فیملی نام کا سسٹم متعارف کروایا۔ 1935ءکے الیکشن کے بعد ترکی کے 395 ممبران میں سے 18 خواتین منتخب ہو کر آئیں جبکہ اسی وقت برطانیہ میں 615 ممبرز میں سے صرف 9 اور امریکہ میں 435 ممبرز میں سے صرف 6 خواتین تھیں۔ 

مہاتیر محمد 10 جولائی 1925ءکو پیدا ہوئے تعلیم کے دوران ہی یونائیٹڈ ملائی نیشنل آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ 1981ءکو ملائیشیا کے چوتھے وزیراعظم بنے اور 2003ءتک مسلسل 22 سال وزیراعظم رہے۔ کمزور ترین ملکی معیشت کو ایسے بلندی تک لے گئے جس طرح دنیا کی اونچی عمارت بنا کر عالم کو ششدر کر دیا جائے۔ سِلی کون ویلی کے نام سے انفرمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔ ملٹی میڈیا کوریڈور بنایا۔ ملائیشیا میں پہلی دفعہ فارمولا ون گرینڈ پری ریس کا میلہ لگانے میں کامیاب ہوئے۔ ملکی اور غیر ملکی مخالفت کے باوجود ”باکون“ ڈیم بنایا جس سے آج ملائیشیا کو بجلی و انرجی کی کوئی فکر نہیں۔ اگر سچ کہا جائے تو ملائیشیا کوایشین ٹائیگر بنا دیا مگر اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نہ کی۔ آج ملائیشیا باقی ممالک کیلئے رول ماڈل ہے۔ اقوام بنانے والے لیڈرز کی بات ہو رہی ہے تو نیلسن منڈیلا کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ جس نے کالے افریقیوں کو آزادی دلانے کیلئے اپنی آدھے سے زیادہ زندگی جیلوں کی نذر کر دی۔ 1996ءکے الیکشن میں تاریخی کامیابی کے بعد انہوں نے افریقہ کی عوام کو متحد کر دیا۔ نیلسن منڈیلا کو نوبیل انعام تو ملا ہی مگر وہ دنیا بھر کی اقوام کیلئے جدوجہد اور ہمت کی علامت بن گئے۔
اسی طرح برطانیہ کے سرونسٹن چرچل جو 1940ءسے لےکر 1945 وزیراعظم منتخب ہوئے اور 1940-41ءمیں جب انگلینڈ تقریبا اکیلا رہ گیا تھا تو اس وقت سرونسٹن چرچل نے قوم کا مورال بلند کیا۔ اور خاص طور پران بیانات کو ریڈیو پر نشر کیا جاتا جس سے ہٹلر سے سہمی اور ڈری ہوئی قوم کو حوصلہ ملتا۔
ماﺅزے تنگ کے لافانی کردار کو بھی نہیں بھلایا جا سکتا جس نے ایک بکھری ہوئی قوم کو اس قابل بنایا کہ آج بلاشبہ وہ دنیا کی معیشت پر اکیلے حاوی ہیں۔ آج دنیا بھر خصوصاً یورپ چین کے پیچھے بھاگ رہا ہے کہاں گئی انکی جمہوریت؟
اسی طرح جنوبی کوریا کے رہنما کم ال سنگ، جرمنی کے چانسلر ہیلمٹ سمتھ ، فرانس کے چارلس ڈیگال اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈروں نے اپنی اپنی قوموں کو جو وژن دیئے ان سے قوموں نے سیکھا اور معراج حاصل کی جبکہ ہم نے قائداعظم کو جو ایمبولینس میں پڑے اپنی قوم کیلئے پریشان تھے اور انکی ایمبولینس پنکچرڈ پڑی تھی۔ گاندھی کو ایک ہندو انتہا پسند نے گولی مار دی۔ ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔ اندرا گاندھی کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سڑک پر شہید کر دیا گیا۔ بالکل اسی جگہ پر جہاں لیاقت علی خاں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ خدا نے ہمیں بار بار قیادت سے نوازا مگر ہم نے ناشکری کی اور آج ہم قیادت کے بحران کے شکار ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو کیا کہ باچا خان یونیورسٹی کے جوانوں کے لاشے انتظار کرتے رہے کہ انکا کوئی پُرسان حال ہو۔ وزیراعظم ڈیووس کے غیر ضروری دورے سے واپس آ سکتے تھے مگر انہوں چار دن ڈیووس میں ضائع کئے اور لندن کا نجی دورہ ضروری سمجھا۔ لندن میں اربوں روپے کی انویسٹمنٹ ہے اور سوئٹزر لینڈ میں عالمی رہنماﺅں سے ہاتھ ملانا بھی تو سعادت کی بات تھی ناں؟ اگر ملک کا ایک سابق صدر جس نے پہلی دفعہ پانچ سال کی مدت پوری کی وہ کھربوں روپے لوٹ کر فرار ہے۔ ایک سابق وزیر کئی سو ارب روپے کے فراڈ میں زیر حراست ہے۔ کئی وفاقی و صوبائی سیکرٹری ملک سے بھاگ چکے ہیں۔ چور چور کو چور کہہ رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے چند وزراءگرفتاری کے ڈر سے خاموش ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کئی ساتھی فرار ہو چکے ہیں تو پھر قیادت کون کریگا۔ طاہر القادری کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ عمران کے پاس وژن نہیں، راحیل شریف ایکسٹینشن نہیں چاہتے تو یا خدایا پھر یہ بائیس کروڑ کا ہجوم کیا کرے؟ اگر جنرل راحیل شریف بھی چلے گئے تو یہ 22 کروڑ عوام ایک دوسرے کو کھا جائینگے۔ قوم پکار رہی ہے، ہمیں جمہوریت سے زیادہ سلامتی چاہیے۔ ہمیں ایک درد دل رکھنے والا، وژن رکھنے والا ، قوم کی سمت بدلنے والا لیڈر چاہیے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ وہ سوشلسٹ ہے، کیمونسٹ ہے، جمہوری ہے، اسلامی ہے، لبرل ہے، نیشنل ہے، مگر ہمیں ایک سچا پاکستانی چاہیے، صرف پاکستان سے پیار کرنیوالا جس کا سرمایہ پاکستان میں ہو۔ عزیر بلوچ کی گرفتاری پر صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن