مجھے یقین ہے کہ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کی وفات سے ایک محب وطن فرزند زمین اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ ان کا تعلق رام پور کی آزاد مسلمان ریاست کے حکمران خاندان سے تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی میں امارت کا تعاقب نہیں کیا لیکن اپنی ذہانت کو علوم سے منور کرنے میں زندگی کے آخری لمحات تک کوشاں رہے اور جتنی دانش حاصل کی اسے وطن عزیز پاکستان کی خدمت میں صرف کیا۔ یعقوب علی خان 1920ء میں رام پور میں پیدا ہوئے۔ حکمران خاندان کا فرد ہونے کی حیثیت میں اعلیٰ درجے کے پبلک سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس دور میں کتابوں کا مطالعہ اور گھڑسواری انکے دو شوق تھے۔ بیس برس کی عمر کو پہنچے تو ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی میں تربیت حاصل کر کے برطانیہ کی فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ منتخب کئے گئے۔ اس عہدے کیلئے گھڑسواری کی مہارت نے انکی معاونت کی۔ اس دور میں طبرق کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ صاحبزادہ یعقوب کو لیبیا کے محاذ پر بھیجا گیا جہاں برطانوی فوج کو اٹلی نے پسپا کر دیا اور صاحبزادہ یعقوب بھی اٹلی کے فوجی قیدی بن گئے۔ انکے قیدی کیمپ میں انکے وطن کی ایک اور شخصیت یحییٰ خان تھی جو بعد میں پاکستان کے آئین کو توڑ کر مارشل لاء کے تحت فوجی صدر بنے تھے۔ دونوں کے مزاج اور مشاغل میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ یحییٰ خان قیدی کیمپ سے فرار کی راہ تلاش کرنے میں مگن تھے۔ صاحبزادہ یعقوب نے قیدی کیمپ کو اکیڈمی بنا لیا اور اطالوی فرانسیسی اور روسی زبانیں سیکھ لیں اور ان میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ نہ صرف روانی سے بول سکتے تھے بلکہ ان زبانوں کی کلاسیکی کتابوں پر گفتگو بھی کر سکتے تھے۔ روسی ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ انکی پسندیدہ کتاب تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ان کی نواسی کاملہ شمسی نے ایک ناول لکھا اور انہیں پڑھنے کیلئے دیا تو صاحبزادہ صاحب نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’وار اینڈ پیس‘‘ کے بعد کوئی ناول انکی نظروں میں نہیں جچا اور انہوں نے اپنی بھتیجی کا ناول بھی نہیں پڑھا۔
صاحبزادہ یعقوب کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر 1945ء میں رہائی ملی۔ ہندوستان واپس آئے تو انہیں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے باڈی گارڈ دستے میں متعین کیا گیا۔ وہ ذہنی طور پر پاکستان کی فوج کے سپاہی تھے اور انہوں نے انڈین آرمی کی بجائے پاکستان کی تشکیل پر اپنی خدمات ’’پاک آرمی‘‘ کو پیش کر دیں۔
صاحبزادہ یعقوب نے پاکستان میں اپنی فوجی مہارت کے بل بوتے پر تیز رفتار ترقی کی اور 1971ء میں وہ ڈھاکہ میں لیفٹیننٹ جنرل اور کور کمانڈر ہی نہیں تھے بلکہ صوبے کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اور کچھ عرصے کے بعد انہیں گورنر کے عہدے پر بھی فائز کیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب ملک فوجی صدر یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کا فیصلہ کیا تو صاحبزادہ یعقوب خان نے اسکی شدید مخالفت کی اور جب انکی سنی نہ گئی تو انہوں نے فوج سے استعفیٰ پیش کر دیا۔ صاحبزادہ صاحب ملک کے پہلے اور تاحال شاید آخری اعلیٰ فوجی افسر تھے جنہوں نے اپنی ملازمت سے قوم کے بلند تر مفاد میں استعفیٰ دیا۔ تجزیہ نگار سوچتے ہیں کہ یحییٰ خان اگر صاحبزادہ یعقوب کا مشورہ مان کر ملٹری ایکشن سے باز آ چاتے تو آج ملک کی تاریخ مختلف ہوتی… شاید سقوط ڈھاکہ ظہور میں نہ آتا۔ قائداعظم کا پاکستان دولخت نہ ہوتا۔
فوج سے علیحدگی کے بعد صاحبزادہ صاحب کی دانش سے سفارتی میدان میں استفادہ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں 1972ء میں فرانس میں اور 1975ء میں امریکہ میں سفیر پاکستان مقرر کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں وہ دوبارہ فرانس میں بطور سفیر بھیجے گئے۔ جنرل ضیا نے انکی سفارتی صلاحیتوں سے سوویت یونین میں استفادہ کی کاوش بھی کی۔ صاحبزادہ صاحب چونکہ روسی زبان روانی سے بول سکتے تھے‘ اسلئے انہیں ماسکو کی اشرافیہ میں بڑی کامیابی ہوئی۔ تاہم دسمبر 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر فوجی حملہ کردیا تو خطے میں حالات کی نوعیت تبدیل ہوگئی۔ چنانچہ صاحبزادہ یعقوب کو بھی ماسکو سے واپس بلا لیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب صدر ضیاء الحق نے عدالتی فیصلے کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے ’’بلیک وارنٹ‘‘ جاری کئے تو سوویت یونین کے کوسہجن کا معافی کا پیغام صاحبزادہ یعقوب نے ہی صدر ضیاء کو پہنچایا تھا اور اپنی یہ رائے بھی ظاہر کی تھی کہ ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی تو یہ سزا قوم کی نفسیات پر لمبے عرصے تک اثرانداز رہے گی۔ صاحبزادہ صاحب کا یہ اقدام بلاشبہ جرأت مندانہ تھا جسے صدر ضیاء الحق نے ’’بھٹو دشمنی‘‘ میں نظرانداز کر دیا۔
صاحبزادہ یعقوب 1985ء میں سینٹ کے رکن منتخب ہوئے اور انہیں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر خارجہ بنایا گیا۔ اس دور میں ان کی تشکیل کردہ خارجہ پالیسی کو فوقیت حاصل رہی۔ صدر ضیاء الحق نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت جونیجو حکومت برطرف کردی اور بعد میں خود بھی فضائی حادثے میں معدوم ہوگئے تو عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اکثریت مل گئی۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو اس وقت سیاسی تجربے کے اعتبار سے پختہ نہیں تھیں۔ گمان غالب یہ ہے کہ صدر اسحاق خان اور آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے انکی راہنمائی کیلئے وزارت خارجہ پر صاحبزادہ یعقوب علی خان کو متعین کرا دیا اور انہوں نے ملک و قوم کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے خدمات انجام دیں۔
صاحبزادہ یعقوب علی خان شاید واحد سفارت کار تھے جو کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انکے ساتھ سفارتی عہدے پر کام کرنیوالے جناب طارق فاطمی نے انہیں خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ہنری کسنجر کے ساتھ گوئٹے اور کانٹ کے فلسفے پر جرمن زبان میں روانی سے گفتگو کرسکتے تھے۔ شاور ناتشے کے ساتھ روسی زبان میں، پشکن اور دستووسکی کے افکار پر بحث کرسکتے تھے۔ انہیں غالب، فیض اور اقبال کا بہت سا کلام زبانی یاد تھا اور وہ اطالوی اور فرانسیسی زبانوں کے ماہر تھے جس ملک کی سفارت پر جاتے اس ملک کی زبان پر عبور حاصل کرلیتے تھے۔ وہ حکمران خاندان میں ہونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئے تھے لیکن ان کا مزاج درویشانہ تھا۔ وہ سفیروں کی ایسوسی ایشن اسلام آباد کے جلسوں میں آتے تو ہمیشہ انکسار اور فروتنی کا مظاہرہ کرتے۔ افسوس کہ یہ سعید شخصیت اب اس دنیا سے اٹھ گئی ہے۔