نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے ایک خصوصی اجلاس میں کی جانے والی ایک تقریر۔
میَں آپکی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہوں۔وہ سین کچھ یوں تھا کہ جیسے آپ کرسی عدالت پر بیٹھے ہیں اور آپکے سامنے ایک ملزم کھڑا ہو۔ملزم سے سوال کیا جارہا ہے کہ تم نے یہ کیا اور ملزم کہتا ہے کہ میَں نے تو یہ نہیں کیا اور پھر وہ اپنے ثبوت میں کچھ واقعات دکھاتا ہے۔اور کہتا ہے کہ نہیں جج صاحب میَں نے تو اس وقت یہ کہا تھا۔
یہاں میَں سب کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میَں صرف زبان کا نہیں عمل کا آدمی ہوں۔ جب میَں نے نظامی صاحب مرحوم سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میَں نے تو خود چھاپا ہے کہ اکبر ایس احمد کی فلم ”جناح“ کا سکرپٹ ہی غلط ہے۔ میَں نے کہا کہ اس کی یہ فلم تو اسلام آباد سنسر بورڈ کی طرف سے سنسر ہوگئی تھی۔ میَں بھی سنسر بورڈ کاممبر رہا ہوں۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ لاہور فلم سنسر بورڈ یا کراچی فلم سنسر بورڈ اگر کسی فلم کو نمائش کے لئے ناقابل قرار دے دیتا ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں، میَں چیلنج کرکے کہتا ہوںکہ اسلام آباد ایک ایسی خوبصورت جگہ ہے جو فلم لاہور یا کراچی سے ناکام ہو جائے کہ یہاں نمائش کے لئے پیش نہیں کی جا سکتی ہے۔ وہ فلم مرکزی اسلام آباد سنسر بورڈ میں اپیل کے ساتھ جاتی ہے۔ تو وہ اپیل صرف کاغذ پر ہی نہیں ہوتی ہے جناب! اس کے ساتھ اور بہت سارے نذرانے ہوتے ہیں۔ اور بہت ساری سفارشیں ہوتی ہیں۔ ایک بھی فلم ایسی نہیں ہے جو کہ سندھ، بلوچستان، پشاور یا لاہور کے سنسر بورڈ سے ناکام ہونے کے بعد اسلام آباد سنسر بورڈ سے بھی ناکام ہو بلکہ ہمیشہ مرکزی سنسر بورڈ اسلام آباد سے کلیئر ہوکے آتی ہے۔ اکبر ایس احمد کی فلم ”جناح“ بھی صرف اسلام آباد سنسر بورڈ میں گئی تھی۔ اس وقت کے صدر میرے بہت قریبی دوست تھے، یہ میَں ذاتی حوالہ دے رہا ہوں۔ فاروق لغاری صاحب نے ملت پارٹی بنائی اور اس میں انہوں نے26 سیٹیں جیتیںوہ میرے گھر تشریف لائے اور کہنے لگے پانچ سیٹیں خواتین کی بنتی ہیں۔ میں ایک سیٹ تمہیں دینا چاہتا ہوں۔ ایک فارم انہوں نے مجھے بھی دیا کہ اس کو پُر کرکے اپنی بیٹی، بہو جس کو بھی تم بنانا چاہو ایم پی اے بنوا دو۔ میرے انکے ساتھ اتنے دیرینہ تعلقات تھے لیکن میری انکے ساتھ لڑائی بھی اسی فلم پر ہوئی تھی۔ جب وہ صدر تھے۔ اسکے بعد میری انکے ساتھ دوسری ملاقات سیٹ کے حوالے سے ہوئی تھی۔ میَں نے انہیں یہ کہا کہ آپ نے اس فلم کےلئے چندہ جمع کرکے دیا تھا۔آپ نے اس فلم کیلئے گورنر ہاﺅس دیا تا کہ وہاں شوٹنگ ہوسکے۔ اس فلم کا عالم یہ تھا کہ مجید نظامی صاحب نے نوائے وقت میں اور میَں نے اپنے اخبار میں، اور چار دیگر اخبارات نے اس فلم پرتنقید کی کہ جناب یہ قائداعظم کی ایک طرح سے ( معاف کیجئے گا) توہین کی گئی ہے۔ ہمارا لیڈر بالکل اس طرح کا نہیں تھا جس طرح اس میں دکھایا گیا ہے۔ لیکن کسی نے بھی کچھ نہیں کیا، اس پورے ملک میں خاموشی رہی۔ وہ فلم سنسر ہوکے آگئی اور اس کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔ میَں پھر نظامی صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ یہ بڑی غلط بات ہورہی ہے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ وہ بڑی آہستہ اور دھیمے انداز میں بات کرتے تھے۔ میَں نے ان سے کہا کہ میَں تو اس کو ہائیکورٹ میں چیلنج کروں گا۔ انہوںنے کہا کہ تجویز تو اچھی ہے لیکن تم کوشش کرلو۔ یہاں مشکل یہ ہے میَں نے بھی وکیل سے یہ پوچھا تھا تو اس نے مجھے یہ بتایا کہ جب ایک بار فلم سنسر ہو جائے تو پھر اس کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔ لیکن میَں نے کہا کہ مجھے چیلنج کرنے تو دیں۔ چنانچہ میَں نے فلم جناح کی نمائش رکوانے کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کردیا۔ جسٹس فقیر محمد کھوکھر صاحب کے پاس وہ کیس لگا۔ جسٹس فقیر محمد کھوکھر صاحب اسلام آباد گئے وہ بعد میں لا سیکرٹری بھی رہے اور سپریم کورٹ کے جسٹس بھی بنے۔ بہرحال ان کے پاس میری اپیل گئی۔ چند پیشیاں گزر گئیں لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ ہم جسٹس صاحبان کا بڑا احترام کرتے ہیں لیکن پہلی بار معاف کیجئے گا میَں بڑا سخت لفظ استعمال کرنے لگا ہوں، جتنی سختی سے بات میں کرسکتا تھا، وہ میَں نے کی۔ ایک دن میَں تنہا انکے کمرے میں چلا گیا وہ ریٹرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میَں نے ان سے کہا کہ میَں آپ کے پاس لڑائی کرنے آیا ہوں۔ وہ تھوڑا سا تو جانتے تھے۔ سلام د±عا تو سب سے ہی ہوتی ہے اخبار نویسوں کی، وہ کہنے لگے۔” کی گل وے؟ دماغ خراب ہوگیا وے؟ اوئے تو جج دے نال لڑنا وے؟“ (کیا بات ہے دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہے۔تم جج کے ساتھ لڑنے آئے ہو؟) میَں نے ان سے کہا جناب عالیٰ میَں کوئی اپنے مکان یا زمین کےلئے آپ کے پاس نہیں آیا ہوں اور نہ ہی اپنی کوئی سروس بحال کروانے آیا ہوں۔ دراصل بات یہ ہے کہ دو پیشیاں آپ نے میری آئیں بائےں شائیں کرکے گزار دی ہیں۔ اس فلم کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔ اسکے اشتہارات شروع ہو چکے ہیں۔آپ میرا کیس کیوں نہیں سنتے ہیں؟ تو وہ مسکرا دئیے اور کہنے لگے کہ ایشو کیا ہے؟ میرے پاس چار پانچ اخبارات جن میں اپنا خبریں، نوائے وقت اور جن اخبارات میں اس فلم کے سین پر تنقید چھپ چکی تھی وہ دکھائیں کہ دیکھیں کہ اس فلم کے بارے میں کیا کیا کچھ چھپ چکا ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مرکزی سنسر بورڈ نے تو فلم سنسر کردی ہے اب تو کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ میَں نے کہا کہ جی کیوں کچھ نہیں ہو سکتا ہے؟ جج صاحب تو مجھ سے بہت زیادہ جانتے ہیں۔ جناب کا علم تو آسمان پر ہے اور میَں تو زمین پر ہوں۔ میَں نے ان سے کہا کہ جن وجوہات کی بنا پر میَں نے اس کو چیلنج کیا ہے اس بنا پر وہ فلم نہیں دکھائی جا سکتی ہے۔آپ میرا یہ کیس سنیں چنانچہ انہوںنے اس کیس کی تاریخ جلدی لگوائی اس تاریخ پر اپنے وکیل کے ساتھ میَں خود بھی پیش ہوا۔ میَں اللہ کا بڑا شکر ادا کرتا ہوںکہ مجھے اس میں کامیابی ہوئی۔ چنانچہ یہ بات آن دی ریکارڈ ہے کہ میَں نے ایک سنسر شدہ فلم کو رکوا دیا اور میَں خود جسٹس فقیر کھوکھر صاحب کی عدالت میں کھڑا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پھر اس فلم کو کون سنسر کریگا؟ میَں نے کہا کہ اس ملک کے جو اعلیٰ ترین تاریخ دان ہیں، دانشور ہیں وہ اس کو سنسر کریں۔ انہوں نے کہا کوئی نام بتائےں۔ ہم نے انکے سامنے کچھ نام لئے، سب سے پہلے جناب مجید نظامی صاحب ، جسٹس جاوید اقبال صاحب، تیسرے نمبر پر میَں نے اشفا ق احمد صاحب کا نام لیا، چوتھے نمبر پر جسٹس ذکی الدین پال یا کوئی اور سابق جج جو پاکستان موومنٹ سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہو۔ جسٹس فقیرمحمد کھوکھر صاحب نے مجھ سے کہا کہ ،اگر میَں اعتزاز احسن کا نام ڈالوںگا تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا۔ میَں نے کہا بالکل نہیں، میَں تو سب کی عزت کرتا ہوں اور چھٹے نمبر پر انہوں نے میرا نام بطور شکایت کنندہ ڈالا اور کہا کہ آپ بھی اس میں بیٹھیںگے۔ چنانچہ ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو حکم ہوا اور فلم سنسر کےلئے میٹروپول سینما لیا گیا۔ ہائیکورٹ کا رجسٹرار ہم سب ممبرز کو لے کر وہاں گیا۔ ہم نے اس فلم میں سے سات سین کٹوائے۔ جو کہ کافی لمبے لمبے سین تھے۔ ان سب کی تفصیل میں نہیں جاﺅں گا البتہ صرف ایک سین مثال کے طور پر بتاتا ہوں۔ جو ہم نے کٹوایا تھا۔ اس میں قائداعظم کی اہلیہ جو کہ مسلمان بھی ہوئیں اور ان کا اسلامی نام بھی رکھا گیا۔ ایک سین میں انہیں دکھایا گیا تھا کہ وہ شراب کا روایتی جام لئے کھڑی ہیں۔ وہ فلم میںبار بار اپنے شوہر (قائداعظم) کو جِن کہتی تھیں اور اس سین کے مکالمے کچھ یوں تھے وہ چونکہ انگریزی میں تھے۔ میَں یہاں اردو ترجمہ پیش کر رہاہوں۔” جِن جلدی کرو ہمیں دیر ہورہی ہے۔ہم نے کلب پہنچنا ہے۔“اس فلم کے اس سین کے بقول : قائداعظم نے کہا”میرے پاس وقت نہیں ہے۔ میَں بہت مصروف ہوں۔تم اکیلی چلی جاﺅ۔“ان الفاظ کے بعد فلم میں قائدا عظم کی اہلیہ نے وہی بھرا جام قائداعظم ؒ کے اُوپر اٹھا کر پھینکا جو کہ ان کے کپڑوں پر گرا۔ جناب یہ وہ پہلا سین تھا جو میں نے کٹوایا تھا۔
میَں صرف زبانی باتیں نہیں کرتا جو بھی تھوڑا بہت مجھ سے بن پڑا وہ میَں نے کیا۔ میری تعلیم ایم اے اردو اور ایم اے عربی ہے۔ اس زمانے میں ایم اے جرنلزم نہیں ہوتا تھا۔ میَں نے بی اے آنرز میں گولڈ میڈل لیا اورعربی میں بھی گولڈ میڈل لیا۔ میَں یہ جانتا ہوں کہ رسول اکرم کی حدیث مبارکہ ہے اگر کوئی بُرائی دیکھو تو اس کو ہاتھ سے روکو اور اگر ہاتھ سے نہیںروک سکو تو زبان سے روکو اور اگر زبان سے بھی نہ روک سکوں تو دل میں اُسے بُرا جانو۔ اس لئے میَں کوشش ضرور کرتا رہا۔ آخر میں‘ میں یہ ضرور کہوں گا کہ نظامی صاحب بالکل اس نتیجے کے حق میں تھے۔
میرے پرانے دوستوں میں سے جیسے حجازی صاحب یہاں بیٹھے ہوئے ہیں وہ یہ جانتے ہوں کہ جب میں جنگ میں جوائنٹ ایڈیٹر تھا۔ جنگ میں سات سال رہا اور نوائے وقت میں 9 سال رہا۔ دو سال پاکستان نکالتا رہا۔ 24 سال سے خبریں چلا رہا ہوں۔ یہ میرا کیرئر ہے۔ میَں نے اس میں ایک مقابلہ کروایا تھا۔ پورے پاکستان سے ایسے لوگ جو کہ وضع قطع میں، شکل و صورت میں قائداعظم سے مشاہبت رکھتے ہوں۔ ان لوگوں کو ٹکٹ اور رہائش ہم دیں گے۔ یہ اشتہار جنگ کے پہلے صفحہ پر تین دن تک چھپتا رہا۔
اخبار نویس کی حیثیت سے میں نے بہت دنیا دیکھی ،گھوما پھرا اہوں۔جو فاﺅنڈر آف دی نیشن ہوتے ہیںحتیٰ کہ آپ امریکہ سے شروع ہوجائیںوائٹ ہاﺅس کے سامنے کونسی لائبریری ہے یہ سب کو ہی معلوم ہے۔جو لوگ فاﺅنڈر آف دی نیشن ہوتے ہیں انہیں کس طرح پرستش کی حد تک پوجا جاتا ہے۔یہ صرف ہم ہی بدبخت لوگ ہیںجنہوں نے زبانی کلامی سال کے بعد اخبار کا ایک ایڈیشن شائع کردیا۔باقی ہمیں ذّرہ برابر بھی دلچسپی نہیں ہے کہ قائداعظم نے کیا تصور پاکستان دیا تھا۔ وہاں انصاف کیسا ہوگا؟تجارت کیسی ہوگی ؟افسری کیسی ہوگی ؟محنت کش کیسا ہوگا؟استاد کیسا ہوگا؟وکیل کیسا ہوگا؟زندگی کے کس شعبے میں کس طرح سے کام ہوگا؟اور اب میَں کسی بھی قسم کی سیاسی بحث کئے بغیرسب سے یہ سوال کرتا ہوں کہ 70سال کا عرصہ ہونے کو ہے۔آج آپ دیکھ لیں کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کا تصور قائداعظم نے دیا تھا؟کیا یہ وہ ریاست ہے جس کا تصور ہم نے دنیا کو دیا تھا کہ ہم ایک مثالی سوشل ویلفیئر سٹیٹ بنا کر دکھائیں گے۔اب بھی ہم یہی کہتے ہیں ناروے کو دیکھ لو یا سویڈن کو دیکھ لو،کہ وہ ویلفیئر سٹیٹ ہیں۔مگرہم کوئی مثال قائم نہیں کرسکے نہ کوئی نمونہ پیش کرسکے۔ میَں نے حال ہی ایک کتاب مکمل کی ہے اور اٹھاون اقساط اس کی لکھی ہیں۔میرے خیال میں آج سب سے بڑا کام کرنے کا یہ ہے‘سٹیٹ کی حفاظت کا۔قائداعظم کے تصور میں ڈھالنے کا کام تو یقیناً سر آنکھوں پر ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری کام اس ریاست کی حفاظت کا کام ہے۔کیا آپ 1947۔1948ءمیں یہ سوچ سکتے تھے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ صوبہ سرحد( خیبر پختونخواہ ) میں تیس سال تک یہی بحث جارہی رہے گی۔افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہمیں ڈیورنڈ لائن قبول نہیںہے اور بھٹو دور میں سپریم کورٹ میں جو ریفرنس دیا گیا‘جناب رفیق تارڑ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں جومجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیںاس ریفرنس کو جنرل جیلانی نے بنایا تھا اس کی اصل اہمیت وہ نہیں تھی جو کہ اخبارات میں چھپی تھی‘اس کی اصل ویلیو وہ کاغذات وہ ثبوت ،وہ دلائل ،وہ ٹھوس شہادتیں تھیںجو ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جناب جنرل جیلانی جو کہ بعد میں پنجاب کے گورنر بھی بنے۔انہوںنے نیپ(NAP) پر پابندی کے جواز کے طورپر پیش کی تھیں کہ جناب یہاں یہ کہا جارہا ہے۔جس میں سے ایک جملہ میَں آپ کو سنا دیتا ہوںاور یہ جملہ جناب اجمل خٹک نے بطور سیکرٹری جنرل نیپ (NAP) کابل میں بیٹھ کر کہا تھا کہ ”ہم جو موجودہ سرحد ہے پاکستان اور افغانستان کی اس کو ڈیورنڈ لائن سے اٹھا کر اٹک کے پل تک لانا چاہتے ہیں“ وہاں تو یہ کچھ ہورہا ہے،مجھ جیسے سادہ لوح یہ سمجھتے رہے کہ جو وہاں کی سیاسی جماعت ہے انہوںنے انگریز کے ساتھ بڑی جنگ لڑی۔اب جب میَں نے ریسرچ کی اور ولی خان کی کتاب ” فیکٹس آر فیکٹس“ پڑھی۔ میں نے اس کے جواب میں ”ولی خان جوا ب دیں“ کے نام سے ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل کتاب لکھی۔ریسرچ کے دوران مجھے یہ معلوم ہو اکہ جس پارٹی کو ہم یہ سمجھتے رہے کہ یہ انگریز کےساتھ بڑی” Freedom Fighter “ہے اور انگریز کے ساتھ لڑتی رہی ہے۔جناب خان عبدالغفار خان کے والدصاحب جن کا نام عبدالجبار خان تھا۔انہیں یہ چار سدہ کی زمین اور یہ ولی باغ ‘جس میں موجودہ ان کی آل اولاد رہتی ہے۔خود ولی خان صاحب بھی وہاں رہتے تھے اور بے شمار لوگ وہاں گئے بھی ہوںگے۔جناب یہ زمین اور اس کے اردگرد کی ساری جائیدار سمیت یہ زمین عبدالجبار خان صاحب کو انگریزی فوج میں سب سے زیادہ جوان بھرتی کروانے پر انعام کے طورپر ملی تھی۔.... (جاری)
(بشکریہ ضیاءشاہد)