’’دادا مقدمہ کرے، پوتا فیصلہ سنے‘‘ عدالتوں، تھانوں میں انصاف میں تاخیر کی دردناک داستانیں

لاہور( شہزادہ خالد) تھانوں اور عدا لتوں سے بر وقت انصاف نہ ملنا،بغیر تفتیش ایف آئی آر درج کر کے گرفتاریاں کر لینا مسائل میں گھری عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔’’دادا مقدمہ کرے اور پوتا فیصلہ سنے ‘‘ والی بات بن گئی ہے۔2016 ء کے اختتام پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کو بجھوائی جانے والی رپورٹ کے مطابق زیر التوا کیسوں کی تعداد ایک لاکھ33 ہزار970 ہے جن میںسے سیشن عدالتوں میں 23551 اور سول عدالتوں میں 110419 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ان میں سے سینکڑوں مقدمات ایسے ہیں جو 15 برس سے بھی زائد عرصہ سے چل رہے ہیں۔ تیز رفتار انصاف کی فراہمی کے لئے بنائی گئی جوڈیشل پالیسی کاغذوں تک محدود رہ گئی۔ خورشید بی بی نے 1980 میں محکمہ انہار کو درخواست دی کہ اسے اپنے کھیتوں کو پانی لگانے میں دشواری ہے وہ اپنے کھیتوں کو پانی کی باری مشتاق سے 10 منٹ بعد میں لینا چاہتی ہے ۔جس پر سب ڈویژنل کینال آفیسرنے اس کی درخواست منظور کر لی ۔ لیکن اس کے بعد مشتاق عدالت چلا گیا اور پھر اس کیس کا فیصلہ36 برس بعد ہوا لیکن 36 برس اور لاکھوں روپے انصاف کی نذر ہو گئے۔ گرین ٹائون کے رہائشی فلک شیر نے 1999ء میں تھانہ گرین ٹائون میں مقدمہ درج کرایا کہ اسکی بیوی زرینہ کو اسکے آشنا اشرف نے اغوا کیا ہے اور اسکی ڈیڑھ سالہ بچی فاطمہ بھی ساتھ لے گیا ہے۔ گرین ٹائون پولیس نے اشرف ، اسکی 7 سالہ بہن راشدہ ، زرینہ سمیت 7 افراد کیخلاف مقدمہ درج کر لیا ۔ اکرم وغیرہ 4 ملزمان کو گرفتار کر کے ان کا چالان فاضل عدالت میں پیش کر دیا گیا جبکہ اشرف ، زرینہ اور راشدہ کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ اسی دوران اشرف کا انتقال ہو گیا اور ہماری چوکس پولیس باقی دو اشتہاریوں جن میں سات سالہ راشدہ بھی شامل تھی کو ڈھونڈتی رہی اور آخر کار 15 برس بعد7 سالہ اشتہاری ملزمہ راشدہ کو جو اب 22 سال کی ہو چکی تھی اسے 2016 میں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ با وثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جس خاتون اور اسکی بیٹی کے اغوا میں راشدہ جیل گئی اس خاتون نے اپنے آشنا اشرف کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لی تھی اوراشرف کے انتقال کے بعد مقدمے کے مدعی فلک شیر (اپنے پہلے خاوند) کے پاس واپس آ گئی اور اسکے ساتھ ہی رہ رہی ہے اور اپنے ساتھ لیجانے والی اپنی ڈیڑھ سالہ بچی کو اسنے قتل کر دیا یا فروخت کر دیا اسکا پتہ نہیں چل سکا۔ اس طرح ایک اور کیس میں فیڈر لئے باپ کی گود میں بیٹھ کرملزم کی حیثیت میں پیش ہوا۔ فاضل عدالت کو بتایا گیا کہ مخالفین کو دھمکیاں دینے اور فائرنگ کے الزام کے تحت چوہنگ پولیس نے چار سالہ ملزم اسحاق کیخلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ معلوم ہواہے کہ مقدمے میں ملوث یوسف اوردیگرافراد نے پہلے ہی ضمانتیں کرالیں تھیں مگراسحاق کی کم عمری کی وجہ سے ضمانت نہ کرائی گئی توپولیس نے گرفتاری کیلئے تنگ کرناشروع کردیا۔پولیس کے ہاتھوں مجبور ہو کر شہری نے بچے کوگودمیں اٹھایااورعدالت میں پیش کردیا۔ وکیل کے چیمبرمیں درخواست پر بچے کے انگوٹھے لگائے اور پھر کمرہ عدالت میں پیشی بھی ہوئی۔ ایڈیشنل سیشن جج نے بچے کیخلاف مقدمہ درج کرنے پربرہمی کااظہارکیا اور پولیس کی سرزنش کی۔مقدمات کے التواء کی بڑی وجہ پولیس کی جانب سے بروقت چالان پیش نہ کرنا اور بطور گواہ بار بار عدالتی طلبی کے لئے پیش نہ ہونا ہے۔لاہور شہر کے30تھانوں میںدرج ہونے والے قتل کے 36اور اقدام قتل کے 42 مقدمات میں سے پولیس ایک بھی مکمل چالان بر وقت متعلقہ عدالتوں میں نہ بھجواسکی جس سے انصاف کی فراہمی تاخیر کا شکار ہو رہی ہے۔ قتل اوراقدام قتل کے مقدمات میںنامکمل و عبوری چالان عدالتوں میں داخل کئے گئے۔پنجاب بھر میں زیر سماعت مقدمات کی زیادہ تعداد میں لاہور پہلے، فیصل آباد دوسرے اور راولپنڈی تیسرے نمبر پر ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...