1970ءتک سیاسی جماعتیں منشور کے تحت الیکشن لڑتی تھیں پھر کھیل بگڑ گیا، انتخابی عمل میں بیلٹ کی بے حرمتی ہوتی ہے، گہرائی میں گئے تو کئی ارکان نا اہل ہوجائینگے: سپریم کورٹ

 سپریم کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی پی 39 سے عام انتخابات میں ہارنے والے امیدوار سردار عارف کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں ووٹوں کی تصدیق کے لیے نادرا سے مدد لینا درست نہیں ہے۔ ووٹوں کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا الیکشن کمشن کا کام ہے جبکہ دوران سماعت تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئیے بدقسمتی سے ملک کے انتخابی عمل میں بیلٹ کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ اگر ہم ان معاملات کی گہرائی میں چلے گئے تو بہت سے ارکان پارلیمنٹ نا اہل ہو جائیں گے۔ ملکی و سیاسی جماعتیں فالٹ لائن پر ہیں۔ اگر سیاسی پارٹیاں گھر گھر اور گلی گلی جا کر منشور کی بنیاد پر انتخابات لڑیں تو صورتحال مختلف ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ 1970 کے انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں تھی‘ پہننے کو کپڑے نہیں تھے لیکن کوئی اپنا ووٹ ایک لاکھ روپے کے عوض بھی فروخت کرنے کو تیار نہیں تھا اس وقت لوگ پیدل اور گدھاگاڑیوں پر ووٹ ڈالنے جاتے تھے۔ اب تو امیدوار سینکڑوں گاڑیاں فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا اب سیاستدان دوبارہ وہی نظام کیوں نہیں لاتے اب صورتحال یہ ہے کہ سیاستدانوں کے اپنے بس کی بات ہے کسی کی بات زیادہ چلتی ہے کسی کی کم چلتی ہے۔ گزشتہ دو تین انتخابات کا مشاہدہ قوم کے سامنے ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا 1970ءتک سیاسی جماعتیں منشور کے تحت الیکشن لڑتی تھیں اور لوگ منشور مدنظر رکھ کر ووٹ دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد کھیل بگڑ گیا اور نظام کسی اور جانب چلا گیا لیکن اس نظام کو بگاڑنے والے بھی یہی ارکان پارلیمنٹ تھے۔ سیاسی جماعتیں وہ دور واپس کیوں نہیں لاتیں۔ جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے سردار عارف کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل کی سماعت کا آغاز کیا تو کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل 1087 ووٹوں سے ناکام قرار پائے جبکہ دو حلقوں کے بیلٹ پیپرز بھی غائب ہیں۔ جسٹس دوست نے کہا عدالت نے طے کر دیا ہے کہ الیکشن کمشن انتخابات میں ہونے والی کرپٹ پرےکٹس کا نوٹس لے گا۔ خواجہ آصف کیس میں تمام پہلوؤں پر فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ انتخابات میں عملے کی کوتاہی کا ذمہ دار جیتنے والا امیدوار نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا الیکشن اور جوئے میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے کہ مخالف ایک پتے سے جیت جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ووٹ تصدیق کروانے کے لئے نادرا کو بھجوانے کا عمل ناقابل فہم ہے۔ اس حوالے سے کوئی قانون بھی موجود نہیں ہے۔ اگر یہ ضروری ہے تو قانون سازی کرنا قانون سازوں کا کام ہے۔ نادرا کے پاس شناختی کارڈ جاری کرنے کے وقت اور صورتحال ہوتی ہے جبکہ پولنگ سٹیشن پر تو لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ کیا نادرا کو ووٹوں کی تصدیق کے اختیارات حاصل ہیں تو کامران مرتضیٰ نے کہا کہ قانون تو موجود نہیں تاہم یہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہا ووٹوں کی تصدیق کے لئے نادرا سے مدد لینا غیرمتعلقہ ہے اس کو مینڈیٹ حاصل نہیں کہ ووٹوں کی تصدیق کرے۔ یہ اختیار الیکشن کمشن کے پاس ہے۔ اگر ہم یہ اختیار نادرا کو دے دیں تو یہ غیرقانونی عمل ہو گا۔ بعدازاں عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ نظرثانی اپیل میں جو نقاط اٹھائے گئے ہیں۔ ان پر پہلے ہی عدالت نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر فیصلے دے دیئے ہیں اس لئے اپیل خارج کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ حلقہ پی بی 39 سے مسلم لیگ ن کے امان اللہ نوتیزئی کامیاب ہوئے تھے جس کے خلاف سردار عارف نے الیکشن ٹربیونل سے رجوع کیا۔ الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف اپیل سپریم کورٹ نے مسترد کر دی تو پھر فیصلہ پر نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی جو خارج کر دی گئی ہے۔ اور امان اللہ کی کامیابی کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن