محترمہ بینظیربھٹو کا قاتل کون؟

محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت کو دس سال گزر چکے ہیں۔ قاتل کو تلاش کرنے کی بجائے آج بھی ان کی پارٹی کی طرف سے محترمہ کی ’’شہادت‘‘ پر سیاست کی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ بلاول زرداری نے ایک جلسے میں ’’قاتل مشرف قاتل مشرف‘‘ کا جب نعرہ لگایا تو جواب میں مشرف نے واضح طور پر کہا کہ ’’پی پی پی نے میرے خلاف بات کی تو آگ لگا دوں گا‘ زرداری نے بینظیربھٹو اور ان کے بھائی کو قتل کرایا۔‘‘ یہ بات مشرف پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں۔ جب بینظیرشہید ہوئیں تب سے ’’زبان خلق نقارۂ خدا‘‘ کے مصداق عوام الناس بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ مگر بغیر کسی ثبوت کے زرداری کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔ اگر آج پیپلزپارٹی یہ کہے کہ محترمہ نے جن تین افراد کے بارے میں کہا تھا کہ ان سے میری جان کو خطرہ ہے ان میں مشرف کا نام بھی تھا تو یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی کیونکہ ان تین افراد میں پرویزالٰہی کا نام بھی شامل تھا جن کو زرداری صاحب نے اپنے دور صدارت میں ڈپٹی نائب وزیراعظم کے عہدے سے نوازا ہوا تھا۔ اگر زرداری صاحب اس قتل کی تحقیقات کرانا چاہتے تو پانچ سال ان کی اپنی حکومت تھی ان تینوں افراد کو حراست میں لے کر تحقیقات کو آگے بڑھایا جاسکتا تھا مگر زرداری حکومت نے مشرف کو اس وقت پروٹوکول کے ساتھ خود رخصت کیا۔ اس وقت بھی مشرف کو روکا جاسکتا تھا مگر زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کا کیونکہ واحد مقصد اقتدار کا حصول تھا جس میں وہ مکمل طور پر کامیاب رہے۔ زرداری صاحب نے ملک دشمن پارٹیوں کو بھی ساتھ ملا کر اپنے پانچ سال پورے کر لیے‘ یہ الگ بات ہے کہ ملک کا ستیاناس کر دیا گیا۔زرداری صاحب شروع سے ہی ’’جمہوریت‘‘ کو بہترین انتقام گردانتے رہے۔ آج 10سال بعد مشرف کو قاتل قرار دینا مضحکہ خیز ہے۔ اب مشرف نے بھی عندیہ دے دیا ہے کہ وہ پاکستان آکر اپنے مقدمات کا سامنا کریں گے۔ مشرف نے یہ بھی کہا کہ پیپلزپارٹی نے میرے خلاف غیر مناسب بات کی تو آگ لگا دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر کو قتل کروا کر زرداری جائیداد اور پارٹی کا مالک بن گیا ہے۔ بینظیر کے قتل پر پیپلزپارٹی کی جانب سے الزامات پر متعدد بار ردعمل دے چکا ہوں۔ بینظیر اور اس کے بھائی کو آصف علی زرداری نے ہی قتل کرایا۔ بینظیر کے قتل پر صرف پولیس کو سزا دینا غیر مناسب ہے۔ مشرف نے یہ بھی کہا کہ بینظیربھٹو کے قتل میں طالبان لیڈر بیت اللہ محسود ملوث تھا‘ اور بیت اللہ محسود کے پیچھے آصف زرداری ہے۔ ثبوت میں نے پیش کیے جس میں زرداری بینظیربھٹو کے قتل میں ملوث ہے‘ عدالت میں جائیں۔ ہمیں بخوبی یاد ہے کہ بینظیر کے قتل پر جب آصف زرداری سے پوسٹ مارٹم کیلئے پوچھا گیا تو زرداری صاحب نے منع کر دیا تھا اور پھر جب زرداری پر انگلیاں اٹھیں تو انہوں نے اقوام متحدہ کی ٹیم سے تحقیقات کرائیں اور قومی خزانے سے بھاری معاوضہ ٹیم کو دیا گیا تھا۔ جب رپورٹ سامنے آئی تھی تو اس میں جلی حروف میں یہ واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ ’’زرداری اور اس کے خاندان کا بینظیربھٹو کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ جب اقوام متحدہ کی ٹیم سے ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ زرداری صاحب کے بارے میں کچھ بتائیں تو ٹیم کے رکن نے ہنس کر کہہ دیا تھا: "He is kind to us" ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گزشتہ دور میں حکومت بنانے سے قبل پیپلزپارٹی کی طرف سے بینظیربھٹو کے قاتل سامنے لانے کا مطالبہ کیا جاتا۔آج پیپلزپارٹی کے جو ارکان اپنے دفاتر اور گھروں میں محترمہ کی تصاویر سجائے ہوئے پیپلزپارٹی سے اپنا تعلق جتاتے ہیں یقین کریں کہ کسی ایک رکن نے بھی بینظیر کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ جب نوازشریف صاحب اپوزیشن میں تھے انہوں نے بھی کہا تھا کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو ہم بینظیربھٹو کی ایف آئی آر درج کرائیں گے مگر تاحال تو درج نہیں ہوسکی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ خورشید شاہ بھی خاموش دکھائی دیئے، حالانکہ حکومت ان کی اپنی تھی۔ قاتل کو پکڑنا ذرا بھی مشکل نہیں تھا مگر پکڑتا کون۔آج 10سال بعد بھی پیپلزپارٹی کا الیکشن سے قبل مشرف قاتل کا واویلا کرنا عجیب سی منطق ہے۔ کیا ایسا کہنے سے پیپلزپارٹی ووٹ حاصل کرسکے گی، نہیں بالکل بھی نہیں۔ درحقیقت اب عوام کے سامنے جانے کیلئے پیپلزپارٹی کے پاس کوئی ’’کارنامہ‘‘ تو ہے نہیں‘ اب بلاول کا ایک ہی کام ہے اور وہ یہ کہ ہر جلسے میں نوازشریف اور عمران خان کو برا بھلا کہنا۔ عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ گزشتہ پانچ سال میں پیپلزپارٹی نے عوام کے مسائل کس حد تک حل کیے تھے؟ اس کا جواب تو یقیناً نفی میں ہے۔ ہمیں یاد ہے زرداری صاحب ہر سال کو عوام کی خدمت کا سال قرار دیتے رہے اور یوں 5سال اقتدار کے مزلے لوٹ لیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جلسوں میں صرف بلاول چیخ چیخ کر جیالوں کو عارضی طور پر خوش تو کرسکتے ہیں مگر عوام اب تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ جہاں تک محترمہ بینظیربھٹو کے قتل کا معاملہ ہے‘ سیدھی سی بات ہے مشرف کے پاس اگر ثبوت ہیں تو اسے عدالت میں لایا جائے تاکہ یہ معمہ بھی حل ہو جائے۔ ہماری نظر میں تو آصف زرداری‘ رحمان ملک اور پرویزمشرف سے اگر جینوئن تفتیش کی جائے تو بینظیر کے قاتل کو منظرعام پر لایا جاسکتا ہے، کیونکہ مشرف کا یہ کہنا کہ اگر پیپلزپارٹی نے میرے لیے غیر مناسب زبان استعمال کی تو ’’میں آگ لگا دوں گا‘‘ بڑا معنی خیز ہے! جہاں تک ہمارا خیال ہے اس قتل کا معمہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکے گا کیونکہ…؟

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن