خادمِ پاکستان

میری خوش نصیبی ایک بار پھر دربار نبویؐ سے بلاوا آیا۔ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ پھر کعبے کا طواف کر کے مدینے آ گیا۔ میں کس منہ سے شکر ادا کروں اس عاصی کو بار بار بلاوا آتا ہے۔ شہنشاہوں کے شہنشاہ کے اس در کی غلامی کیا ملی اب کسی اور در پر جانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ دربار مصطفٰیؐ کے شب و روز ہیں اور التجا صرف یہ ہے کہ آقا میرے وطن پاکستان پر نظر کرم کر دیجئے۔ بہت دُکھ سہہ لئے اب خوشی اور شادمانی میسر ہو… شام ہوٹل میں قصور کی زینت کے قاتل کی گرفتاری کی خبر ملی۔ دل مضطرب کو اطمینان نصیب ہوا۔ ظالم قانون کی گرفت میں آ گیا اور آتا کیوں نہ مین آف ایکشن کے ایکشن Acation سے کون بچ سکتا ہے۔ خادم اعلیٰ اب انشاء اللہ ’’خادمِ پاکستان‘‘ ہوگا۔ اسی سال 2018ء میں آپ انتخابات تو ہونے دیں۔ نوائے وقت کے انہی صفحات میں میں نے لکھا تھا خادم اعلیٰ ’’خادم پاکستان‘‘ بنے گا۔ لوگ اس وقت مختلف چینلز پر بیٹھے پیش گوئیاں کر رہے تھے دونوں بھائی اب جدا ہو گئے ہیں۔ خاندان انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔ نہ جانے کیا کہانیاں اور قصے سنے اور سنائے گئے۔ میں خاموشی سے ان قصے کہانیوں کو سنتا رہا اور مسکراتا رہا۔ پھر اپنے کالم میں سارا حال دل لکھ دیا۔ میں نے لکھا تھا 2018ء میں خادم اعلیٰ خادم پاکستان کی صورت میں ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔ لوگوں نے اس فقیر کی بات کو جذباتی وابستگی سمجھا لیکن آج یہ بات حقیقت معلوم ہونا شروع ہوگئی ہے۔میں عازِم عمرہ ہوا تو محمد نواز شریف کی بات کان میں پڑی۔ ہم دونوں بھائیوں کے درمیان کبھی لکیر نہیں پڑ سکتی۔ انہوں نے بالکل دُرست کہا یہ دونوں ایک سکے کے دو رُخ ہیں۔ ان کے درمیان زندگی میں کوئی لکیر نہیں پڑ سکتی۔ 80 کی دہائی کے نصف سے آج تک ان دونوں بھائیوں کے ساتھ طویل وقت گزرا۔ حلقہ PP125 کی جنرل سیکرٹری شپ کے وقت غالباً 88 میں محمد شہباز شریف کے ساتھ کام کیا۔ اس وقت بھی وہ مین آف ایکشن تھے۔ آج بھی مین آف ایکشن ہیں۔ وہ منصوبہ بندی کے بعد تیزی کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں اور بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اپنے اہداف تک پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں۔ پھر مناسب وقت میں جب تمام کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔ ٹیم بن جائے تو اس کا اعلان کرتے ہیں۔ اس وقت بھی یہی ہوا جب اقامہ پر قائد جمہوریت کو فارغ کیا گیا تو انتظار کیا گیا کہ شاید غلطی کا احساس ہو پھر فیصلہ ہوا اب کرنا کیا ہے اور تیزی کے ساتھ منصوبہ بندی کر کے کام شروع کر دیا گیا۔ اعلیٰ کارکردگی تو خادم اعلیٰ نے منوا لی تھی۔ مین آف ایکشن نے جب ایکشن شروع کیا۔ ٹیم بن گئی تو آخری وقت میں اعلان ’’خادم پاکستان‘‘ ہوا انشاء اللہ یہ ٹارگٹ 2018ء میں قائد جمہوریت محمد نواز شریف کی قیادت میں پورا ہوگا۔ مُرشد اقبال کہتے ہیں باغ کے نظارے اچھے ہوں یا بُرے، قابل دید ہوں یا نا قابل دید، نرگس ان کو دیکھنے پر مجبور ہے اور خود عمل سے محروم ہونے کے باعث اس کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتی۔ صنوبر کو دیکھو وہ اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔ اسے چلنے کی لذت کا کوئی احساس ہی نہیں اور اس کی فطرت میں تمنا پیدا ہی نہیں ہوتی۔ دُنیا کی جس چیز کو دیکھو، وہ تسلیم، اطاعت اور فرماں برداری کی عادی ہے صرف انسان ہے جو ہر وقت اپنی ہر قوت اردگرد کی چیزوں کو بدل ڈالنے میں لگائے رکھتا ہے اور کبھی آرام سے نہیں بیٹھتا۔ ہمیشہ سرگرم تقاضا رہتا ہے۔ یہ اگرچہ ذرے کی مانند ہے لیکن اسے ہر وقت پھیلنے کی جستجو لگی رہتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ ذرہ نہیں بلکہ بیاباں نے سمٹ کر ذرے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ انسان چاہے تو کائنات کے پورے باغ کی شکل بدل ڈالے، اس لئے کہ یہ عقل مند ہے دانا، بینا اور توانا ہے۔

کیا گزشتہ دس سالوں نے ثابت نہیں کیا کہ خادمِ اعلیٰ دانا بھی ہے، بینا بھی اور توانا بھی… باغ کی ہیئت اس نے بدل کر رکھ دی ہے۔ جنگلہ بس اب پشاور میں بھی زیر تعمیر ہے اور بہت کچھ جس کے لئے ایک یہی اشارہ کافی ہے۔ باقی خود سمجھ لیں…
دوسری طرف حدیبیہ کا گڑھا مردہ بھی دوبارہ دفن ہو گیا اور آخری اطلاع کے مطابق پیر سیال شریف کے ہاں ’’خادم پاکستان‘‘ خود پہنچ گئے اور ان کو گلستان کی دعائے خوشحالی کے لئے رضا مند کر لیا۔ یہ ذرہ اب پھیل کر پاکستان بن رہا ہے۔ خادم پاکستان جس ذرے کا نام ہے سمٹے تو ذرہ بندہ ناچیز ’’خادم‘‘ پھیلے تو خطہ ارضِ پاکستان…؎
دل سے تیری نگاہ جگر تک اُتر گئی
دونوں کو اِک ادا میں رضا مند کر گئی

ای پیپر دی نیشن