ڈاکٹر شاہد مسعود نے کس کو فائدہ دیا؟

تھانہ کلچر ایک مختلف حقیقت ہے۔ اگر اس پر فلسفیانہ گفتگو کی جائے تو ایسے ہی لگے گا جیسے برسوں کی بھوک سے نڈھال شخص مرغ پلائو کی افادیت پر لیکچر دے رہا ہو۔ یہ مثال دینے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ ہمارے محترم وفاقی وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال علمی اور فلسفی شخصیت ہیں۔ وہ وزارت داخلہ خوب چلا رہے ہیں لیکن وزارت پلاننگ اور سی پیک کے منصوبے خوب تر چلا رہے تھے۔ انہوں نے زینب قتل کیس پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات کو ففتھ جنریشن وارفیئر کا حصہ قرار دیتے ہوئے لوگوں کو جاگتے رہنے کی تلقین کی۔ ففتھ جنریشن وارفیئر جنگی فلاسفی کا جدید نظریہ ہے۔ فرسٹ جنریشن وارفیئر سترویں صدی کے جنگی فلسفے کو کہا جاتا تھا جب فوجوں کو فارمیشن بناکر حملہ آور ہونے کی تربیت دی جانے لگی اور فوج کے یونیفارم اور رینک وغیرہ ترتیب پائے۔ سیکنڈ جنریشن وارفیئر کا نظریہ 1800ء میں سامنے آیا جب لمبی بیرل والی رائفلیں جنگ میں استعمال کی جانے لگیں۔ ان کے ذریعے دشمن کو موثر جانی نقصان پہنچایا جاسکتا تھا۔ سیکنڈ جنریشن وارفیئر کا عرصہ تقریباً پہلی جنگ عظیم تک پھیلا ہوا ہے۔ تھرڈ جنریشن وارفیئر کی فلاسفی سب سے پہلے جرمن فوجوں نے فرانس کے خلاف استعمال کی۔ اس میں فوج کو تیزی سے ایڈوانس کروا کے دشمن کے عقب پر قبضہ کرنا شامل تھا۔ اس کے لئے ٹینک، میکنائزڈ انفنٹری اور ایئر فورس کی مدد حاصل کی گئی۔ اس کی مثالوں میں دوسری جنگ عظیم شامل ہے۔ فورتھ جنریشن وارفیئر کی اصطلاح سب سے پہلے ولیم لِنڈ اور ان کی ٹیم کے فوجی محققین نے امریکہ کے ایک فوجی میگزین ’’میرین کور گزٹ‘‘ میں 1989ء میں استعمال کی۔ ان کے تحقیقی مقالے کا نام ’’دی چینجنگ فیس آف وار: اِن ٹو دی فورتھ جنریشن ‘‘تھا۔ مقالہ نگاروں نے فورتھ جنریشن وارفیئر کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس قسم کے معرکوں میں سیاست، جنگ، فوجی اور سویلین حلقوں میں فرق ختم کردیا جاتا ہے‘‘۔ ان کی مراد تھی کہ پہلی تین جنریشن وارفیئرز میں فوج، فوج پر ہی حملہ آور ہوتی تھی یا دشمن کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن فورتھ جنریشن وارفیئر میں یہ تمیز ختم کردی گئی۔

اس کا مقصد دشمن کے علاقے میں مکمل افراتفری پیدا کرنا تھا۔ ایسی جنگیں بہت ہی پیچیدہ اور لمبے عرصے تک چلتی ہیں۔ ان کی مثالوں میں گوریلا جنگ، دہشت گردی کی سرگرمیاں، شام اور افغان وار وغیرہ شامل ہیں۔ فورتھ جنریشن وارفیئر میں ٹیکنالوجی، میڈیا وغیرہ کا استعمال شروع ہوگیا۔ ففتھ جنریشن وارفیئر کی تھیوری 90ء کی دہائی میں سامنے آئی۔ اسے ’’نان کنٹیکٹ وار‘‘ بھی کہا گیا۔ یعنی آپ دشمن کو دیکھ سکیں لیکن دشمن آپ کو نہ دیکھ سکے۔ اس کے ٹولز میں میزائل ٹیکنالوجی اور ڈرون حملے وغیرہ نمایاں ہیں۔ ففتھ جنریشن وارفیئر کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں میڈیا ڈس انفارمیشن، سوشل میڈیا اور معیشت وغیرہ کو بھی ایک اہم ترین اسلحے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس سے ٹارگٹ ایریا میں مکمل انارکی پھیلنے لگی۔ اس کی واضح مثال موجودہ دور ہے۔ اسی کا ذکر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کیا کہ ’’ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب کیس میں ن لیگ کی حکومت کو ٹارگٹ کیا ہے‘‘۔ احسن اقبال نے اس حوالے سے ففتھ جنریشن وارفیئر کا جو خدشہ ظاہر کیا وہ ہوسکتا ہے درست ہو۔ تاہم ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب کیس میں مذکورہ الزامات کا تجزیہ ایک نئے انداز سے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات سے پہلے زینب کے مبینہ قاتل کو پکڑنے کے باوجود پنجاب پولیس اور خاص طور پر شہباز شریف عوام اور میڈیا کی انتہائی تنقید کی زد میں تھے۔ ملزم عمران کی ڈرامائی گرفتاری کے سبب لوگ پنجاب پولیس کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ لوگوں کے خیال میں ایک فرد اکیلا یہ سب کچھ نہیں کرسکتا اور پولیس ایسے ہی سابقہ آٹھ نو واقعات سے اپنی جان چھڑانے کے لئے عمران کو قربانی کا بکرا بنارہی ہے اور یہ کہ سپریم کورٹ کی ڈیڈلائن ختم ہونے سے صرف ایک رات پہلے ملزم کی گرفتاری سپریم کورٹ کے غضب سے بچنے کے لئے پولیس کی ایک روایتی تکنیک ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شہباز شریف کی پریس کانفرنس کے دوران بجائی جانے والی تالیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس کے علاوہ شہباز شریف نے جب زینب کے والد کا مائیک بند کیا تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ لہٰذا مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پر شہباز شریف، پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کی نیک نامی یقینی بدنامی میں بدلنے والی تھی۔ عین اُسی وقت ڈاکٹر شاہد مسعود نے ملزم عمران کے بارے میں خوفناک انکشافات کردیئے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر چیف جسٹس اور آرمی چیف سے التجا کی کہ وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ غلط ہوں تو انہیں سرعام پھانسی دے دی جائے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے یہ کہنے سے ایک شدید زلزلہ آگیا۔ ہرطرف سنسنی پھیل گئی۔ پورا ملک ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو گیا۔ چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی بات کا فوری نوٹس لیا اور کاروائی شروع کردی۔ جب چیف جسٹس نے لاہور میں اِن انکشافات کی باقاعدہ سماعت کی تو ڈاکٹر شاہد مسعود کوئی خاص ثبوت نہ دے سکے۔ اس پر میڈیا اور پورا ملک سٹپٹا گیا۔ بحث زینب قتل کیس سے نکل کر میڈیا اور صحافیوں کی اخلاقیات کی طرف چل نکلی۔ لوگ اور میڈیا پنجاب حکومت پر تنقید چھوڑ کر صحافیوں کے کردار پر باتیں کرنے لگے۔
اس پورے ماحول کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ کوئی خطرناک جانور تیزی سے آپ کی طرف آرہا ہو کہ اچانک اُس کے اور آپ کے درمیان سے کوئی دوسرا جانور کراس کرجائے تو خطرناک جانور کی توجہ اُس کی طرف ہوجائے اور وہ اُس کے پیچھے بھاگنے لگے۔ اس طرح آپ کسی حد تک محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر شاہد مسعود نے ملزم عمران پر مذکورہ الزامات لگاکر لوگوں کی شدید تنقید اور شک و شبہے کا رخ نہیں موڑ دیا جو اِس سے پہلے شہباز شریف اور پنجاب پولیس کو مکمل طور پر گھیر چکے تھے؟ احسن اقبال بتائیں کہ اگر بدترین مخالف کی کوئی حرکت آپ کو فائدہ دے جائے تو اِسے ففتھ جنریشن وارفیئر میں کیا کہا جائے گا اور یہ بھی بتائیں کہ بدترین مخالف کی یہ حرکت خودبخود واقع ہو جاتی ہے یا ایسا سسٹم ڈویلپ کیا جاتا ہے کہ وہ بدترین مخالف غیرارادی طور پر ٹریپ ہوکر آپ کو فائدہ پہنچا دے؟

ای پیپر دی نیشن