وقت کیسے بدلتا ہے وزیراعظم عمران خان کو یوٹرن خان کہنے والوں نے خود سب سے بڑا مفاداتی اور تاریخی یو ٹرن لیا ہے ہماری نظر میں یو ٹرن میں کوئی قباحت نہیں، انسان ایک وقت میں فیصلے کرتا ہے بعد میں جلد اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا اور تبدیل کرتاہے یہ تو انسانی فطرت کا خاصہ ہے زرداری کا یہ کہنا زبان زدِعام تھا کہ ن لیگ والے جب مشکل میں آتے ہیں تو پاؤں پڑتے ہیں اور جب اقتدار میںآتے ہیں تو گلے پڑتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال ن لیگ کی حکومت کے دوران دونوں ایک دوسرے کو للکارتے رہے اور زرداری کا کہنا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اب ان سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ گزشتہ پانچ سال میں عوامی مسائل کے لئے یہ کبھی اکٹھے نہیں ہوئے آج بغل گیر ہو رہے ہیں۔عمران خان کو سیلیکٹڈ وزیراعظم کہنے والے خود یہ بھول جاتے ہیں کہ ن لیگ جنرل ضیاء الحق کی سیلیکٹڈ ہے اور بھٹو شہید کی پارٹی ختم ہو چکی ہے زرداری پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے صدقے میں برسراقتدار آئی بخدا نفسیہ شاہ، خورشید شاہ، چودھری منظور، مرتضٰی وہاب یا پی پی پی کے دیگر ترجمان آج جس جذبے سے زرداری پارٹی کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں محترمہ کی شہادت پر ان میں سے کسی نے ایک لفظ تک نہیں کہا اور نہ ہی کسی بھی رکن کی طرف سے یہ بات سننے کو ملی کہ جب تک محترمہ کے قاتل نہیں پکڑے جاتے میں کوئی عہدہ نہیں لوں گا یا لوں گی۔ محترمہ کی شہادت پر آج تک ان کی زبانیں بند ہیں یہ ہے مفاداتی سیاست آج دونوں پارٹیوں کو مہنگائی ، بیروزگاری، گیس کی لوڈشیڈنگ یاد آ رہی ہے ۔
گیس کی لوڈشیڈنگ آپ دونوں کی حکومت میں بڑھ چڑھ کر ہوتی تھی موجودہ حکومت تو ابھی چار پانچ ماہ ہوئے ہیں۔ پانچ سال صبرو کرو حوصلہ سے کام لو اگر یہ کام نہیں کریںگے تو قوم ان کو رد کر دے گی۔ن لیگ والے میٹرو بس‘ اورنج ٹرین کو سائیڈ پر کر لیں بتائیں عوام کے بنیادی مسائل کون سے حل کئے ہیں۔ سکولوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ ہسپتالوں کی صورتحال یہ ہے کہ اپنا علاج تو بیرون ملک ہوتا ہے۔ ن لیگ کے پانچ سال میں مکمل باقاعدگی سے سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ سب مسائل جوں کے توں ہیں۔ کھربوں کی جائیدادیں بنائیں ۔ منی ٹریل ایک پیسے کی نہیں دی۔ بلکہ ججوں اور فوج کو گالیاں دی گئیں۔ اس کے باوجود ضمانتیں بھی ہو رہی ہیں۔ انصاف میں تاخیر کا یہ عالم ہے کہ پولیس نے چودہ معصوم شہری مار دیئے۔ کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ قانون کی حکمرانی کا یہ عالم ہے کہ غریب آدمی جرم کرے تو فوراً پولیس اسے دبوچ لیتی ہے۔ ایک ہی رات میں مار مار کر اس سے اگلے پچھلے حساب بھی سود کے ساتھ وصول کر لیتی ہے۔ مگر جب ’’اشرافیہ‘‘ اربوں کھربوں کی لوٹ مار کریں تو جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے۔ سب سے بڑا ثبوت تو انسان کا ضمیر ہوتا ہے۔ جب وہ ہی مردہ ہو جائے تو سب کچھ بے معنی ہو جاتا ہے۔ زرداری نے دور اندیشی سے کام لیکر اٹھارہویں ترمیم سے صوبوں کو خود مختار کیا۔ انہیں دوسرے صوبوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ صرف سندھ صوبے کو تحفظ دینا مقصود تھا۔ زرداری صاحب کو علم تھا کہ زرداری پارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک ملکی اداروں کا اتحادیوں کے ساتھ مل کر ستیاناس کر دیا ہے۔ منی لانڈرنگ کے بارے میں جے آئی ٹی رپورٹ بھی واضح ہے۔ زرداری صاحب اور فریال تالپور پر شدید الزامات ہیں۔ ن لیگ بھی مقدمات کی زد میں ہے۔ لہذا اب دونوں پارٹیوں کا ایک ہی مفاد ہے کہ کسی طرح موجودہ حکومت کے اس احتساب سے بچا جائے۔ لہذا انہوں نے ناممکن کو ممکن بنا کر تاریخی یو ٹرن لیا ہے تاکہ احتساب سے بچا جا سکے۔ جرائم پر فخر کا یہ عالم ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کے بننے والے سابق صدر فرماتے ہیں کہ جیل میرا دوسرا گھر ہے۔ کوئی شریف انسان جیل کا سوچتے ہوئے بھی کانپتا ہے۔ بہرحال ن لیگ اور پی پی پی کو تاریخی یوٹرن لینے پر مبارک ہو۔
نوسو الفتیں : ن لیگ پی پی ایک پیج پر
Feb 02, 2019