انتظار حسین کی یاد میں

انتظار حسین ایک صاحبِ اسلوب ادیب اور کثیر الجہات ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے ۷ دسمبر 1923 ء کو بھارت کے آبائی گائوں ڈبائی ضلع بلند شہر (یوپی) میں آنکھ کھولی۔ انکے والدِ گرامی منظر علی ایک علمی اور مذہبی شخصیت کے طور پر’’ ڈبائی‘‘ کی ایک معروف شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔وہ اپنے بیٹے کو عالمِ دین بنانا چاہتے تھے مگر انتظار حسین کا دھیان اُردو ادب کی کتابوں کی طرف مائل ہوا۔ 1947ء کو تقسیمِ ہندوستان کے وقت وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان کے شہر لاہور میں سکونت پذیر ہوئے ۔ 1946ء میں انہوں نے ایم اے اُردو کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔جہاں وہ پروفیسر کرار حسین کے شاگرد تھے۔ انتظار حسین نے زندگی بھر کوئی سرکاری نوکری نہیں کی بلکہ اپنی عملی صحافت کا آغاز روزنامہ ’’ آفاق‘‘ سے کیا۔پھر انہوں نے فیض احمد فیض کی دارت میں ہفت روزہ ’’امروز‘‘ میں کچھ عرصہ کام کیا ۔ 1970ء میں انہیں عنایت اللہ کے روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں لے آئے جہاں یہ ’’لاہور نامہ‘‘ لکھنے لگے۔ انکے یہ کالم ادب سے متعلق موضوعات پر ہوتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اُردو میں کالم لکھے بلکہ انگریزی زبان میں بھی لکھے ان کے یہ کالم ڈیلی ’’ڈان‘‘ کے ادبی ایڈیشن Authors and book میں چھپا کرتے۔ انہوں نے زندگی کی آخری سانس تک اپنی کالم نگاری کے جوہر روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں ’’بندگی نامہ‘‘ کے نام سے لکھے۔ ان کا آخری اردو کالم’’عربی زبان کے شناور خورشید رضوی‘‘ 25 جنوری 2016ء کو چھپا۔ان کے کالموں میں بیشتر علمی وادبی کتابوں،ادبی رحجانات، ادبی سرگرمیوں، اردو مصنفین، اردو کتب ورسائل اور تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی مسائل کے بارے میں لکھتے تھے۔ ایک تحریر میں انتظار صاحب خود لکھتے ہیں کہ’’کبھی کبھی مجھے گمان گزرتا ہے کہ میں ایک فقرے کی پیداوار ہوں‘‘ انتظار صاحب کے ابتدائی افسانے ترقی پسند روایت اور حقیقت نگاری کی روایت کے امین تھے۔ انکے ہاں علامتی افسانوں کا رنگ بھی ملتا ہیں۔ کیونکہ ان کے لکھنے کا اسلوب دیگر لکھاریوں سے جداگانہ تھا یہی وجہ ہے کہ انکے ہاں اسلوبِ داستاں بھی ملتا ہے اس حوالے سے انکے افسانوں کے کئی مجموعے ہیں جن میں ’’کنکری‘‘، ’’آخری آدمی‘‘،’’شہرِ افسوس‘‘ اور ’’کوندے‘‘ وغیرہ۔ افسانوں کے علاوہ انہوں نے متعدد ناول بھی لکھے جن میں چاند گہن، بستی، تذکرہ (جسے بعد میں ’’اپنا گھر‘‘ کے نام سے بھی شائع کیا گیا) اور ’’ر آگے سمندر ہے‘‘ سے زیادہ شہرت ملی۔ان کا ناول ’’بستی‘‘ انگریزی میں ترجمہ ہوا تو انہیں اس پر بکر پرائز سے نوازا گیا یہ اُردو کا پہلا ناول تھا جس کے حصے میں یہ اعزاز آیا یوں اُردو کا نام عالمی سطح پر جانا گیا۔انکے دیگر ناولوں میں آخری آدمی، شکستہ ستون پر دھوپ، شہرزاد کے نام، اپنی دانست میں اور خوابوں کا مسافر وغیرہ۔ انکے ناول میں بھی افسانوں کی طرح ایک عجب سی کشمکش جگمگاتی تھی۔ ہمیں عہدِ ماضی کے ہجر کا دُکھ چھپا ہوانکی تحریروں میں جا بجا پڑھنے کو ملتاان کے افسانوں اور ناولوں میں کہیں نہ کہیں حقیقت پوشیدہ ہونے کا راز موجود تھا۔ اور یہی انکی داستانوں میں جو سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں ان میں ایک حقیقت اور سچائی کا روپ نمایاں تھا۔ اس حوالے سے مستنصر حسین تاڑر لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک قرۃ العین اور انتظار حسین شائد دنیا بھر کے ادیبوں میں اس لحاظ سے حیرتناک طور پر منفرد ہیں کہ ان دونوں کی تحریروں میں جنسی قربت یا صنف مخالف کی کشش کا کہیں کچھ اعتراف نہیں ملتا۔ ‘‘ انتظار صاحب نے جہاں اخباری کالموں ، متراجم، تذکروں، تنقید، سفر ناموں اور صحافتی کالموں میں طبع آزمائی کی وہیں انہوں نے بچوں کیلئے لازوال کہانیوں کے مجموعے تخلیق کیے۔ میرے خیال میں انہوں نے زندگی بھر قلم اور قرطاس سے وابستہ ہوتے ہوئے زندگی کی آخری سانس تک جتنا لکھا اُتنا ہم جیسے بیشتر لوگ ساری زندگی پڑھنے اور لکھنے کا دعوی نہیں کر سکتے۔ 2010ء میں جب عطاالحق نے انکے اعزاز میں تقریب رکھی تو اس دوران حمید اختر نے انتظار صاحب کو اس زمانے کا سب سے بڑا ترقی پسند لکھاری قرار دیا۔ان کے ادبی خدمات کے اعتراف میں فرانس کی حکومت نے انہیں ستمبر 2014 میں ’’آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز‘‘ نامی ایوارڈ سے نوازا۔ جبکہ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارئہ امتیاز جیسے اہم سول اعزازات سے نوازا وہیں انہیں اکادمی ادبیات کی جانب سے ملک کا سب سے بڑا اعزاز کمالِ فن بھی تفویض کیا۔انتظار صاحب سے بڑا لکھاری اور محبتوں ، صداقتوں کے امین 2فروری 2016ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ مگر انکی چوتھی برسی کے موقع پر ادبی فضا آج بھی افسردہ ہیں۔ان کی وفات پر جب اکادمی ادبیات نے تعزیتی ریفرنس کی تقریب کے دوران عرفان صدیقی نے ایک خوبصورت جملہ کہا تھا کہ ’’ایک اور انتظار حسین کیلئے ہمیں صدیوں انتظار کرنا ہوگا۔‘‘

ای پیپر دی نیشن