مِٹی پائو۔۔۔

Feb 02, 2020

عدنان عالم

مشرقی اور مغربی جرمنی میں جنگ کے دوران جب ایک فوجی نے لاشوں کے ڈھیر کے درمیان ایک زخم خوردہ شخص کو لڑکھڑاتے چلتے ہوئے دیکھا تو اس کو مارنے کیلئے آگے بڑھا ، یہ دیکھ کروہ رک گیا کہ اس زخمی کے ہاتھوں میں کچھ تھا جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے شائدکسی محفوظ مقام کی طرف جا رہا تھا ۔فوجی نے پاس جا کر دیکھا تو اس زخمی کے ہاتھ میں ایک تصویر تھی جو کسی مصور کا شاہکار تھا،جسے زخمی نے اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔فوجی یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ سینکڑوں لاشوں کے بیچ یہ شخص اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر محض ایک تصویر کو سنبھال رہا ہے، فوجی نے زخمی سے اس کی وجہ پوچھی!زخمی نے جواب دیا کہ،یہ تصویر میرے ملک کی ثقافت کی عکاس ہے ،میں مرنے سے پہلے اسے محفوظ کرنا چاہتا ہوں تاکہ ورثہ اگلی نسل تک منتقل ہو جائے کیونکہ قومیں اپنی ثقافت سے زندہ رہتی ہیں۔ فوجی نے یہ سن کر اس زخمی کو زندہ چھوڑ دیا ۔ یہ طے ہے کہ قوموں کی بقاء ثقافت کی مرہون منت ہے ۔ تاریخ انسانی کو ہر دور میں تہذیب و ثقافت نے محفوظ رکھا۔ اب جب پوری دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ،نت نئی سہولیات نے ثقافت کو محفوظ کرنے اور فروغ کے عمل کو آسان بنا دیا مگر ہمارے ملک میں ایک طرف تو کتابوں میں پڑھے اور سنے تاریخی مقامات کو میزائل اور بموں نے کھنڈر بنانا شروع کر دیاہے ، اور دوسری جانب ماحولیاتی آلودگی کا جن ثقافت کی نشانیوںکو نگل رہا ہے۔رہی سہی کسر ناقص منصوبہ بندی سے شروع کی گئے ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے نے کر دی ہے اس منصوبے کے تحت لاہور میں چلنے والی اورنج ٹرین کے راستے ہموار کرنے کی مہم میں لاہوریوں کو اورنج کے لالچ میں رنج ہی رنج مل رہا ہے۔

 ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ ترقی یافتہ ممالک کا قابل رشک پلان ہے جو جدید دور میں عوام کے لیے سفری سہولیات میں آسائش پیدا کرتا ہے ۔پاکستان کے ہمسایہ ملک چین نے 27.1کلومیٹر کاٹریک لاہور شہر میں 27ماہ میں مکمل کرنے کا 1.6ملین ڈالر کا سمجھوتہ حکومت پاکستان سے کیا جس کے تحت رائے ونڈ روڈسے میکلوڈروڈ تک ایک گھنٹے میں30ہزارمسافرسفر کریں گے۔منصوبے کے لئے زمین پنجاب حکومت نے فراہم کی ہے جس کے لئے ۲۰ ارب روپے رکھے گئے تھے۔26اسٹیشن مختلف مقامات پر بنائے جارہے ہیں۔دوسری جانب منصوبے کی تکمیل کے لئے آٹھ لاکھ افراد متاثر بھی ہوئے۔42کے قریب سکول و کالج اورنج ٹرین کی زد میں آئے جنہیں جزوی مسماری کا سامنا کرنا پڑا۔کئی مساجد،گرجا گھروں، قبرستان بھی متاثر ہوئے جبکہ کوئی متبادل بندوبست نہ ہوا۔مجموعی طور تعمیراتی کام اسی فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔چینی ماہرین کی زیر نگرانی تیز رفتاری سے کام ہورہا ہے۔اس ٹریک پر عوام کی ایک خاص تعدادکے لیے سفری سہولیات میں آسانی پیدا ہو گی۔ تاریخ کے اوراق دیکھیں،شیرشاہ سوری نے جی ٹی روڈ بنا کر شہروںہی کے نہیںدلوں کے بھی فاصلے کم کردیے مگر لاہور سے کابل تک جی ٹی روڈتک کہی کہیں شیر شاہ سوری نام کی تختی نہیں لگی۔یہ فاصلے کم کرنے کا بیڑا خادم اعلی میاں شہباز شریف نے اٹھایا تھا جو لاہور کو پیرس بنانے کے لیے اپنے نام کی تختیاں لگاتے رہے ہیں۔لاہور جو ثقافت کا گہوارہ اور زندہ دلان کا شہر ہے ،گرد آلود ہو چکا ہے ادھڑی ہوئی سڑکیں ثقافت کی قبروںکا منظر پیش کرہی ہیں ۔تاریخ کو مٹا کرنہ جانے کونسی تاریخ لکھی جارہی ہے ۔1.6ملین ڈالر 5.1ملین کی آبادی والے شہر پر لگانے کے لیے چینی حکومت نے خود چینی سے منہ میٹھا کرلیا مگر لاہوریوں کی آنکھ ،ناک ،منہ ،میںمٹی ڈال دی ترقی اور خوشحالی کا سنہری ا دور سانس کی بیماری لے کر حاصل ہوگا۔بے ہنگم ٹریفک یہ ثابت کر رہی ہے جیسے شہری حکومت سرے سے موجود ہی نہیں اور لاہور شہر کو کوئی چلانے والا نہیں۔اب موجودہ حکومت کے آتے ہی منصوبہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا پھر تمام کام اور ٹھیکوںکا ازسر نو جائزہ لینے کا عندیہ بھی دیا گیا۔ ایک سال میں منصوبے پر کوئی خاص پیس رفت سامنے نہیں آئی جبکہ ایک بار پھر آزمائشی سفر دکھا کرلاہوریوں کو مزید آزمائشوں میں رکھ دیا ہے۔ کوئی بھی تعمیراتی منصوبہ اگروقت پر مکمل نہ ہو تو اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا۔ یہاں توعدالت عظمی کی ’’نگاہ کرم‘‘ بھی کام نہ کر سکی۔عدالت نے اورنج لائن ٹرین کا از خود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے منصوبے کے لئے رقوم جاری کرنے ،ٹھیکیداروں کو ادائیگی اور جلد مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔تاحال سول ورک نہیں ہو رہا ۔تحریک انصاف کی حکومت نے منصوبے کے فنڈ جاری کر دئے ہیںاور اسے مکمل کرنے کا عزم رکھتی ہے ۔اس سے قبل کے اس منصوبے میں بھی وزراء کوئی نیاراگ الاپتے ہوئے اب تک عوام کے لگائے گئے تین ارب روپے کی ’’کرپشن ٹرین‘‘ یہاں بھی نہ چلانا شروع کردیں ۔حکومت کم از کم دلچسپی سے اس پراجیکٹ کو مکمل کرے ،یاپھر پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کی طرح اس منصوبے پر بھی’’مٹی پائو‘‘ ۔

مزیدخبریں