عوام سُوئے دار

جی ہاں ۔۔ تب سب کچھ ہرا ہرا لگتا ہے جب انسان کسی بڑے زعم میں ہو ، بڑی خوشی میں ہو ، برسراقتدار ہو اور ایسا خواب پورا ہوا ہو جو کبھی بس دیکھا ہی جا سکتا تھا ، اُس کی تعبیر دور دور تک نہ تھی ۔
بیشک ہمارے کپتان برسراقتدار بھی ہیں اور ’’ نیازیانہ‘‘زعم میں بھی ، اسی لئے ہر فورم پر بلاجھجک ، بے دھڑک ارشاد فرما دیتے ہیں کہ ملک ترقی و کامرانی کی عظیم شاہراہ پر گامزن ہے ، ہر کوئی سکھ کی بانسری بجا رہا ہے ،چاروں اور خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہیں ، پورا ملک ڈھول کی تھاپ پر رقص میں غرق ہے اور ہر نہر ، دریا اور جھیل پر پریاں اتر رہی ہیں ۔۔ دوسری جانب ملک کی حالتِ زار یہ ہے کہ مائیں بہنیں ، بیٹیاں’’ ہائے آٹا۔ ہائے چینی‘‘ کی دہائی دے رہی ہیں ، نوجوان نوکریوں کے خواب دیکھنا چھوڑ چکے ہیں ، بیروزگاری عام ہے ، اشیائے خوردونوش کو آگ لگ ہے ، خود سوزیوں ، خودکشیوں کا موسم پھر سے لوٹ آیا ہے ، اسی موسم کے صدقے گزشتہ دنوں کراچی جیسے شہر میں ایک باپ نے اس لئے خودکشی کی ہے کہ اسکے بچے یخ سرد موسم میں گرم کپڑوں کا مطالبہ کر رہے تھے جبکہ پیارے وزیراعظم عالمی اقتصادی فورم میں خطاب فرماتے ہوئے یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ان کی معاشی پالیسیوں نے اقتصادی ترقی کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔اللہ اللہ ۔۔۔ وزیراعظم کی بیان بازی پر بھلا کیا کہا جا سکتا ہے ۔۔ ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے ۔۔’’ حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میَں ‘‘ ایک جانب وزیراعظم بڑے معصومانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ ان کا اپنی تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا جبکہ دوسری جانب ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ ملک ترقی و کامرانی کی نئی منزلوں پر گامزن ہے ۔یقینا یہ کھلا تضاد ہے اور اس کھلے تضاد پر طرح طرح کے لطیفے بنے ہوئے ہیں ۔لیکن چھوڑیئے ! یہ کالم لطیفے گھڑنے کیلئے نہیں ہے ، ہم وزیراعظم عمران خان سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ ملک شدید افراتفری کا شکار ہے ، یہاں کم سن بچوں بچیوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ، زناء بالجبر کے مقدمات عام شہری گماشتوںکے ساتھ ساتھ عدلیہ اور بیوروکریسی سے وابستہ افراد پر بھی بن رہے ہیں ، ملک میں کرپشن کا واویلہ اس حد تک ہے کہ حکومتی ارکان اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر ’’ہائے کرپشن ‘‘کے نعرے لگارہے ہیں ،شخصی آزادیوں اور جمہوریت کی حالت یہ ہے کہ اکنامسٹ ڈیموکریسی انڈیکس نے پاکستان کو مزید کئی درجے نیچے گرا کر 108ویں نمبر پرپھینک دیا ہے ۔پورے ملک میں ایک ایسا منصوبہ نہیں جو قابل ذکر ہو ، سی پیک جیسا اگر کوئی منصوبہ کہیں پر ہے بھی تو وہ بیچارہ مریل چیونٹی کی طرح رینگ رہا ہے ، دوسری جانب خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت آپس میں گتھم گتھا ہے ۔
صاحبو !ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پیارے وزیراعظم کو آٹا بحران کا علم نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس خوفناک اسکینڈل کی انکوائری کیلئے ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے پھر بھی انہیں مشورہ ضرور دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے آٹا بحران کو باریک بینی سے دیکھنا ہو تو کسی مارکیٹ یا غریب گھرانوں کے کچن کا دورہ نہ کریں ، فقط آٹا بحران پر عدلیہ میں یکایک آنیوالے ڈھیروں مقدمات کی بابت ہی سن گُن لے لیں ، انہیں معلوم ہو جائے گا کہ عوا م کس کرب سے گزر رہے ہیں ،پرانا محاورہ ہے کہ گنجی نچوڑے کیا اور نہائے کیا ، ہم نے جان بوجھ کر نچوڑے کا لفظ نہانے سے پہلے استعمال کیا ہے ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ عوام پور ے کے پورے نُچڑ چکے ہیں افسوس کہ جس ملک میں دھڑا دھڑا فیکٹریاں بند ہو رہی ہوں ، پاورلومز کے لاکھوں مزدور بیروزگار ہو کر بیٹھ گئے ہوں ، کسان بیشمار گندم پیدا کرنے کے باوجود ہائے آٹا کی صدائیں بلند کر رہے ہوں، اس ملک کے وزیراعظم کو ہرا ہرا سوجھ رہا ہے ۔ہونا تو یہ چاہئیے کہ وزیراعظم بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کوئی قابل عمل قدم اٹھائیں ، مہنگائی کے مرتکب ناسوروں کو کٹہرے میں لائیںلیکن افسوس کہ وہ الٹا عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں مصروف ہیں اور ہمیشہ یہی تاثر دینے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ ملک کی سمت درست کردی گئی ہے ،اقتصادیات کی گاڑی فر فر دوڑ رہی ہے اور خزانوں کے منہ عوام کیلئے کھول دئے گئے ہیں ۔اگر واقعی کپتان صاحب بڑے مضبوط عزائم رکھتے ہیں تو کھل کر سامنے آئیں ، عوام کے دکھوں کو محسوس کریں اور ان کا حل نکال کے دکھائیں ورنہ سب یہی کہیں گے کہ کپتان صاحب چونکہ خود اقتدار کے نشہ میں ہیں اس لئے انہیں ہرا ہرا سوجھتا ہے ، عوام جائیں بھاڑ میں، کسی اندھی غار میں، سُولی چڑھیں یا مر جائیں ۔بقول فیض احمد فیض ۔۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سُوئے دار چلے

ای پیپر دی نیشن