گزشتہ روز سوات میں خواجہ سرائوں کی صوبائی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کی طرف سے مقامی پولیس کے ناروا سلوک ، غیر قانونی چھاپوں اور تشد د کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی میں بیسیوں خواجہ سرائوں نے شرکت کی ۔ پولیس کے خلاف نعرے لگائے ، اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں اور گلے سے دوپٹے اتار کر پولیس اہلکاروں کی طرف پھینکے۔ خواجہ سرائوں نے روائتی انداز میں پورا میک اپ کر رکھا تھا اور خوبصورت لباس پہنا ہُوا تھا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ خدارا، پولیس افسران اور اہلکاران بڑی محنت سے حاصل کی جانے والی روزی کو چھیننے کا سلسلہ ختم کریں۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ خواجہ سرائوں نے جس روزی کا ذکر کیا ، وہ کسی خواجہ سراء کا نام نہیں بلکہ بقول اُن کے خون اور پسینے کی کمائی مراد ہے۔ پولیس کیخلاف خواجہ سرائوں کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ علاقے میں کسی کے گھر بیٹا پیدا ہونے ، شادی بیاہ یا منگنی وغیرہ کے علاوہ دیگر تقریبات پر ناچ گانے کی محفل منعقد کرنے کے لئے باقاعدہ تحریری اجازت حاصل کی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود پولیس اہلکار اپنے بعض افسروں کی سربراہی میں چھاپہ مارتے ہیں، اس کارروائی کے دوران خواجہ سرائوں کو گرو سمیت تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ۔ ظلم کچھ یوں بھی ہوتا ہے کہ شائقین کی طرف سے نچھاور ہونے والے کرنسی نوٹ بھی چھین لئے جاتے ہیں ۔ خواجہ سراء کہتے ہیں کہ تحریری اجازت کے بعد یہ سب کچھ بِلاجواز ہے؟
خواجہ سرائوں کا یہ سوال اپنی جگہ بہت مناسب ہے ۔ اس میں پولیس زیادتی کا عنصر واضح ہوتا ہے لیکن پولیس ذرائع یہ موقف پیش کرتے ہیں کہ خواجہ سراء ناچ گانے کی محفل کے دوران فحاشی پر اُتر آتے ہیں اور اُن بیہودہ اور فحش حرکتوں سے تماشائی اور حاضرین اکثر اوقات آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح سے کئی گروپ بن جاتے ہیں، کئی واقعات میں حکم عدولی کرنے والے خواجہ سراء کو بھی گولی مار دی جاتی ہے ۔ جس سے وہ ہسپتال اور گھر میں معذور ہو کر علاج کرواتا ہے اور اس کا روز گار ختم ہو جاتا ہے بلکہ گرو کو علاج معالجے اور خوراک وغیرہ کے لئے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ ظاہر ہے اس صورت حال سے خواجہ سرائوں کو بچانے کے لئے پولیس کارروائی ضروری ہوتی ہے ۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ناچ گانے کی محفل میں خواجہ سراء فحش حرکات نہ کریں اور محض کرنسی نوٹوں کی خاطر بیہودہ اور ناجائز حرکات سے گریز کریں تو تماشائیوں کے گروپس میں لڑائی جھگڑے اور تصادم نہ ہوں ۔ دیکھا جائے تو دونوں اطراف سے جو مئوقف پیش کئے گئے اور جو دلائل دئیے گئے ہیں ، وہ اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں ۔ تاہم خواجہ سرائوں کی طرف سے اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ پولیس اہلکار اور افسران اپنے مخصوص عزائم اور مقاصد کے لیئے ناچ گانے کی محفلوں پر چھاپے مارتے ہیں۔ اس تنازعے کاجائزہ لیا جائے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ پہلے چھاپے کبھی کبھی مارے جاتے تھے لیکن تشدد اور لوٹ مار کا الزام کم لگایا جاتا تھا ۔ دو تین دہائیوں سے یہ سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ تحریری اجازت کے باوجود چھاپے تشدد اور لوٹ مار کی ایک سے زائد وجوہ ہیں۔ عموماًپولیس اہلکاروں اور افسران پر اپنی جیب گرم کا الزام لگایا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ پہلو گرم کرنے کے لئے چھاپے مارنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ پھر یہ وجہ بھی ہے کہ مختلف شہروں میں خواجہ سرائوں کے ایک سے زائد گروپس وجود میں آ چکے ہیں ۔ ایک دوسرے پر دھونس اور اجارہ داری قائم کرنے کے لئے پولیس والوں کو رشوت دے کر چھاپے مروائے جاتے ہیں۔ یوں پولیس چھاپوں ، تشدد اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ صوبہ کے پی کے اور پنجاب کے بعض علاقوں میں خواجہ سرائوں کا کاروبار اور ناچ گانے کی محفلوں کے ساتھ ساتھ دوستی کے معاملات عام ہیں ۔ اِس لئے پولیس اور خواجہ سرائوں کی یاری اور دشمنی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دل پشوری کے اس معاملے میں آنکھ مچولی ہوتی رہتی ہے ۔ یہ دل پشوری اکثر اوقا ت دل آزاری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ انہیں پولیس چھاپے بڑے مہنگے پڑتے ہیں کیونکہ ایک گر و کئی کئی خواجہ سرائوں ہی کو نہیں ، سازندوں اور اُن کے خاندانوں کی بھی کفالت کرتا ہے ۔ یہ کاروبار سکون سے چلتا رہے تو بہتری سمجھی جاتی ہے ۔ خواجہ سراء بہت مجبور ہو کر احتجاج وغیرہ کرتے ہیں۔ اُن کا بنیادی مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ ُان سے اُن کی خون پسینے کی ’’روزی‘‘نہ چھینی جائے۔ سوات میں احتجاجی ریلی نکالنے والوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر انہیں تنگ کرنے کا سلسلہ ختم نہ ہُوا تو وہ پورے صوبے میں احتجاج کریں گے۔