شیخ رشید احمد آجکل وفاقی وزیر ریلوے کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں‘ لیکن وہ پاکستان ریلوے کے مسائل پر توجہ دیئے بغیر عمران خان کے حکومتی کردار کی تعریف و توصیف میں لگے رہتے ہیں۔ انکی ریلوے وزارت کے دوران بہت سے ریلوں کے حادثات ہو چکے ہیں۔ ایک بڑے ریل حادثے کا جس میں 70 مسافر جل کر انتقال کر گئے تھے‘ سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے اور وزیر ریلوے شیخ رشید کو 28 جنوری کو طلب کر لیا تھا۔ اس دن شیخ رشید سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے پیش ہوئے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریلوے حادثے میں 70 مسافروں کے انتقال پرملال پر شیخ رشید کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین حادثے میں 70 مسافر جل گئے تو شیخ رشید کو استعفیٰ دیدینا چاہئے تھا۔سپریم کورٹ نے وزیر ریلوے شیخ رشید سے ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے پلان طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ اگر شیخ رشید نے اپنے دیئے گئے پلان پر عمل نہ کیا تو ان کیخلاف توہین عدالت اور فوجداری کارروائی کی جائیگی۔ سماعت کے آغاز میں ریلوے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر وزیر ریلوے عدالت میں پیش ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیر ریلوے بتائیں کہ اس حادثے کے نتیجے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ آپ کا سارا کچھا چٹھا تو ہمارے سامنے ہے۔ میرا خیال ہے کہ ریلوے کو آپ بند ہی کردیںجیسے ریلوے چلائی جا رہی ہے۔ ہمیں ایسی ریلوے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جب 70 مسافر جل کر خاک ہو گئے تو بتائیں ریلوے ملازمین کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔ اس پر وزیر ریلوے شیخ رشید نے بتایا کہ انیس ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس کہا کہ گیٹ کیپر اور ڈرائیور کو نکالا گیا۔ بڑے ریلوے افسران کیخلاف کیا کارروائی کی۔ کیا کسی سی ای او کو نوکری سے نکالا۔ اس پر شیخ رشید نے جواب دیا کہ آپکی ہدایت پر بڑے افسران کیخلاف بھی کارروائی کی جائیگی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ محکمہ ریلوے میں سب سے بڑے تو آپ خود ہیں۔ یہ بتائیں کہ 70 مسافروں کے مرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے۔ اس ریل کے جلنے کے بعد تو آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ اس پر شیخ رشید نے کہا کہ ایم ایل ون چودہ سا پرانا منصوبہ ہے۔ جس پر عمل نہیں ہوا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے پرانے رونے نہ روئیں۔ ریلوے کے پاس نہ سگنل ہے نہ ٹریک نہ بوگیاں ہیں بلکہ ریلوے کے محکمے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ ریلوے افسر جسے چاہتے ہیں زمین دے دیتے ہیں۔ شیخ رشید نے جواب دیا کہ ہم آپکے سامنے رونا نہ روئیں تو کس کے سامنے روئیں۔ میرے دور میں ریلوے کی زمین کسی کو نہیں دی گئی۔ اس چیف جسٹس نے انکشاف کیا کہ کراچی میں حیات ایجنسی ہوٹل کو ریلوے اراضی آپ نے الاٹ کی ہے۔ اس پر شیخ رشید نے اس الاٹ منٹ کو تسلیم کر دیا اور بیان دیا کہ عدالت مجھے بطور وزیر ریلوے کام کرنے کی مہلت دے میں اگر معیار پر پورا نہ اترا تو استعفیٰ دے دوں گا۔ چیف جسٹس نے شیخ رشید نے پوچھا کہ سرکلر ٹرین کا کیا بنایا گیا۔ سرکلر ریلوے کی 38 کنال زمین عدالتی حکم پر خالی ہوئی۔ کیماڑی جائیں۔ کالا پل دیکھیں، ان کا کیا حال ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی وہاںجدید ترین ریلوے گاڑیاں چلنے لگی ہیں لیکن پاکستانی ریلوے تنزل کا شکار ہو رہی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریلوے ایم ایل کی فنانس کہاں سے لائے گی۔ اربوں کا خسارہ ریلوے کو ہر سال ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انڈیا، چائینہ ، جاپان کے ٹریک دیکھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایم ایل ون کون سی جادوگری ہے۔ سپریم کورٹ میں ریلوے ملازمین کے تین تین سو مقدمات آتے ہیں۔ ریلوے کا ہر افسر بڑی قوم لیکر بھرتیاں کر رہا ہے۔ ریلوے کے بابو اپنی جیبیں گرم کر رہے ہیں ان بابوئوں سے ریلوے نہیں چلے گی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ کیس کی اگلی سماعت بارہ فروری کو ہو گی۔ بعدازاں شیخ رشید نے سماعت ختم ہونے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے مجھ سے بڑے سخت سوالات کئے اور میری تضیک کی۔ وزیراعظم صاحب یہ آپ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایگزیکٹو امورمیں عدالتی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان نے جواب دیتے ہوئے شیخ رشید کو بتایا کہ ہمیں عدلیہ کا احترام کرنا چاہئے۔ ریلوے کی طرح پی آئی اے کے معاملات میں بھی عدلیہ کے تحفظات دور کرنا ہوں گے۔ عدالت عالیہ جو بھی پوچھے اسے صاف طور پر بتانا ہمارا حق بنتا ہے۔ اجلاس میں موجود وفاقی وزراء نے عمرانی بیان کی تصدیق کی تاہم وفاقی وزیر شیخ رشید نے اس بات کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ شیخ رشید بیان دیا ہے کہ اگر میں زیادہ بات کروں تو جج صاحبان کہتے ہیں کہ میں سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں اپنی وزارت ریلوے کو نظرانداز کر رہا ہوں۔ اب دیکھتے ہیں بارہ فروری کو کیا فیصلہ آتا ہے۔
برہمی ججوں کی دیکھیں شیخ جی
دیکھئے اب فیصلہ آئے گا کیا
٭…٭…٭