عوام کی تنخواہ کون بڑھائے گا؟؟؟؟

عوام کے منتخب نمائندوں کو اپنی تنخواہیں بڑھانے کا غم کھائے جا رہا ہے۔ اسمبلیوں میں بل پیش ہو رہے ہیں۔ ان منتخب نمائندوں کے لیے گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ تنخواہیں کم پڑ رہی ہیں۔ ناصرف تنخواہیں بلکہ مراعات کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ہم یہ تفصیلات پڑھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسے منتخب نمائندے ہیں جو ووٹ عوام سے لیتے ہیں اور پھر چوٹ بھی انہیں غریبوں پر لگاتے ہیں۔ یہ کیسے عوام کے ہمدرد ہیں جنہیں اب تک یہ احساس نہیں ہو سکا کہ عام آدمی کس حال میں زندگی گذار رہا ہے۔ اس کا چولہا کیسے جلتا ہو گا، اس کے بچے کیسے سکول جاتے ہوں گے اگر خدانخواستہ کوئی بیمار ہو گیا تو علاج کیسے ہوتا ہو گا۔ ہائے ہائے یہ کتنے پتھر دل ہیں انہیں ان غریبوں کا ذرا احساس نہیں ہے یہاں انہی صفحات پر اسی حکومت میں کے دور میں اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک سال تو ہو گیا ہے کہ مہنگائی، اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کی آسمان سے کرتی باتوں پر درجنوں کالم لکھے گئے ہیں یقیناً اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بھی اس حوالے سے بہت کچھ بولا اور لکھا گیا ہے لیکن آج تک عام آدمی کے لیے تو کوئی آسانی پیدا نہیں ہو سکی۔ اتنی سرعت، لگن اور جوش و جذبے کے ساتھ عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ عام آدمی کو ریلیف نہ دیا جا سکے لیکن عوام کے اپنے منتخب نمائندوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں ان کی ترجیحات میں ان کے ووٹرز کا نمبر آخری ہے۔ ووٹرز کا نمبر صرف الیکشن کے دنوں میں اوپر آتا ہے ان دنوں امیدوار ان کے آگے پیچھے پھرتے اور ناز نخرے اٹھاتے ہیں اس کے بعد پھر ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ لائنوں میں لگ کر دھکے کھا کر ووٹ ڈالنے والوں کو امیدوار الیکشن جیت کر دھتکارتا رہتا ہے۔ چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اور اراکین کی تنخواہوں، الاؤنسز اور مراعات ایکٹ میں ترمیم کے تین بلز سینیٹ ایجنڈا میں شامل کرلئے گئے یہ بل کل سینیٹ میں پیش کیے جائیں گے۔یہ تاریخی بلز سینیٹر نصیب اللہ بازئی، سجاد حسین توری، دلاور خان، ڈاکٹر اشوک کمار اور دیگر سینیٹرز کی جانب سے جمع کرائے گئے ہیں۔چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ، الاؤنس اور مراعات میں اضافے کے بل میں کہا گیا ہے کہ انکی تنخواہ سپریم کورٹ کے جج کی بنیادی تنخواہ کے مطابق مقرر کی جائے۔
سینیٹ کے چیئرمین قومی اسمبلی کے سپیکر کی تنخواہ 2 لاکھ 25 ہزار سے بڑھا کر 8 لاکھ ، 79 ہزار روپے مقرر کی جائے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 1 لاکھ 85 ہزار سے بڑھا کر 8 لاکھ 29 ہزار روپے کی جائے۔
یہ بل اس ایوان کے نمائندے پیش کر رہے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ ملک کو زبردست معاشی بحران کا سامنا ہے، ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، قرضوں کی قسطیں ادا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہم دوست ممالک سے قرضے لے رہے ہیں ادھار تیل لے رہے ہیں، قرضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور قرضوں کے حوالے تمام دستاویزات بھی قومی اسمبلی میں یہی اراکین پیش کرتے ہیں اتنے علم اور باخبر ہونے کے باوجود انہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ ملکی معیشت کا کیا حال ہے اور ملک کو کن سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ یہ منتخب نمائندے یہ بھی نہیں جانتے کہ ملک میں سبزیاں کس بھائو مل رہی ہیں، پھلوں کی قیمتیں کیا ہیں، ادویات کس بھائو مل رہی ہیں اور علاج کتنا مہنگا ہو چکا ہے، بچوں کو پڑھانا کس قدر مشکل ہو چکا ہے۔ عوام کس عذب میں مبتلا ہیں انہیں صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات کی فکر لگی ہوئی ہے۔
اراکین کی تنخواہوں بارے کہا گیا ہے کہ ان کی تنخواہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے سے بڑھا کر تین لاکھ روپے مقرر کی جائے۔ سفر کے لیے ٹرین کی ائیر کنڈیشنڈ کلاس ٹکٹ کے برابر رقم دی جائے۔ جہاز کے بزنس کلاس کے ٹکٹ کے مطابق سفر الاؤنس دیا جائے۔ بذریعہ سڑک سفر کی صورت میں پچیس روپے فی کلومیٹر سفر الاؤنس دیا جائے۔
ان تنخواہوں اور مراعات کو پڑھیں اور سوچیں کہ کیا یہ عوام کے خادم ہیں، کیا یہ وہی ہیں جو کہتے ہیں آپکا آزمایا ہوا، آپکا خادم، نہ بکنے والا نہ جھکنے والا، آپ کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے والا، آپکے دکھ درد کا ساتھی۔ اس کے بعد جو آپ پڑھیں گے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
بل میں تجویز دی گئی ہے کہ رکن پارلیمنٹ کو بیرون ملک دوروں میں فرسٹ کلاس ائیر ٹکٹ دیا جائے، پچیس فرسٹ کلاس بزنس ائیر ٹکٹ فراہم کیے جائیں۔ ملک کے اندر سفر کے لیے رکن پارلیمنٹ کی اہلیہ، شوہر یا بچے بھی ان ٹکٹس کو استعمال کرسکیں۔
یہ ہیں عوام کے منتخب نمائندے اور یہ ان بلوں کی تفصیلات ہیں جو وہ پیش کر رہے ہیں۔ اس میں کہیں لکھا ہے کہ عوام کو آٹا چینی، آلو، گوشت اور دالیں کیسے سستے داموں فراہم کرنی ہیں۔ انہیں غریب کا بچہ نہیں یاد، کسی کی بیمار والدہ کا خیال نہیں آیا، کسی کی بیمار اہلیہ کا نہیں سوچا لیکن اپنے لیے وہ سب کچھ چاہتے ہیں جس کی فراہمی کا وعدہ عوام سے کر کے آئے ہیں۔ یہ تو تنخواہیں بھی بڑھا لیں گے مراعات بھی حاصل کر لیں گے لیکن عام آدمی کے لیے کون سوچے گا۔ اسمبلیوں میں پہنچنے والے کبھی عوام کے لیے نہیں آتے وہ اہنے کاموں اور کاروبار کے لیے آتے ہیں۔ اپنی جاگیر بڑھانے اور اپنی نسلوں کو معاشی مستقبل محفوظ بنانے کے لیے آتے ہیں۔
سائرن نے ہر وقت عوامی مسائل کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ ہمیشہ عوامی مسائل کو ترجیح دی ہے۔
یہی بات کرتے کرتے اگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دربار دو ہی ہوتے ہیں ایک عوامی اور ایک شاہی دربار، ہمیں یہ فخر ہے کہ ہمیشہ عوامی دربار کو ترجیح دی ہے۔ اصل دربار یہی ہے۔ جن لوگوں پر کام ہونا چاہیے وہ یہی لوگ ہیں۔ شاہی دربار والے تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کے سینے میں دل کہاں ہوتے ہیں۔ اس دربار کے عارضی مکین تو کبھی نہ ختم ہونے کے عارضے میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر عوام حبیب جالب نے کہا تھا کہ
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اسکو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
عوامی دربار کی اہمیت یہ ہے کہ یہاں آپکو خالص لوگ ملیں گے، محبت کرنے والے ملتے ہیں، دعائیں دینے والے ملتے ہیں، محبت بانٹنے والے ملتے ہیں، پیار کرنے والے ملتے ہیں، ان کے پاس جو ہوتا ہے وہ آپ پر نچھاور کر دینے کو تیار ہوتے ہیں، چھوٹی سی بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔
سامنے کوئی بھی ہو، کیسا بھی ہو، کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ہر فورم پر عوام کی بات کی ہے۔ عہدے واپس کیے ہیں، سرکاری دفاتر کو خیر باد کہا ہے، سرکار کے سٹاف سے علیحدگی اختیار کی ہے، سختیاں اور مشکلیں برداشت کی ہیں لیکن عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یقین ہے کہ عوام کے لئے بھی کبھی راحت کا سامان ضرور ہو گا۔ ان کے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی ضرور آئے گا۔کیا ہوا کہ ظلم کی رات لمبی ہے۔ اندھیرا چھٹے گا اور روشنی آئے گی۔ کوئی ایسا ضرور آئے گا جو عوام کی تنخواہیں بڑھائے اور منتخب نمائندوں کی تنخواہیں کم کرے گا۔ ان شاء اللہ

ای پیپر دی نیشن