بعض اصحاب الرائے کا یہ قول کہ بغیر انگریزی زبان کی تعلیم کے ترقی ممکن نہیں ان کیلئے جاپان اور چین کی مثالیں راہ نمائی کا حق ادا کرسکتی ہیں البتہ اگر افراد قوم یہ فیصلہ کرلیں کہ انھیں اسلامی شعار زندگی قبول نہیں کرنا ہے تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بغیر انگریزی زبان پر دل و جان نچھاور کئے ہوئے زندگی محال ہے۔
کسی زبان کے ذریعہ علوم و فنون حاصل کرنے کے لئے انسان کی طلب آرزو، رجحان، رغبت اور مدعا بڑی حد تک قابلِ اعتنا ہے ان کیفیات پر اس کا لطیف احساس حاوی ہوتا ہے جو ہر ایسی غیر مانوس شے کی طرف ذوق و شوق کے ساتھ لاشعوری طور پر ملتفت نہیں ہوتا، جس سے وہ نہ سماجی اور نہ گھریلو ماحول میں دو چار ہوتا ہے۔ ان موانع کے باوجود اور نامساعد حالات کے تحت اگر انسان کو قہراً و جبراً ایسی ناآشنا زبان کے ذریعہ کسب علوم کرنے کی ہدایت کی جائے گی تو اس کا لطیف احساس آہستہ آہستہ جبر کے بار سے منتشر اور پراگندہ ہوتا جائے گا اس کی قوائے عملی اور قوت تخلیقی ناموافق اثرات سے کمزور اور زبوں حال ہوجائیں گے۔ اور قومی زندگی کا دامن بھی ایسے افراد کے وجود سے واغدار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔غیر مانوس یا غیر مادری زبان کے ذریعہ حصول علم دیر طلب ہوتا ہے۔ کچھ وقت زبان سیکھنے میں ضائع ہوتا ہے‘ اور اس کے بعد افکار و خیالات تک رسائی ممکن ہوتی ہے اس کے علاوہ افکار و خیالات کی تشریح و وضاحت کے لئے زبان پر مہارت ضروری ہے اور غیر مادری زبان میں مہارت مادری زبان کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور دقت طلب ہے مثال کے طورپر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس ملک میں انگریزی زبان میں جتنے باکمال شاعر اورادیب پیداہوئے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ مادری زبان نے فضلا اور علماء پیدا کئے جو قوم و ملک کی فلاح و بہبود کے ضامن قرار پائے۔ اگر غیر مادری زبان میں مہارت حاصل کرنی آسان ہوتی توماہرین کی پیداوار میں اضافہ ہوتا اسی لئے فنی مضامین ہوں یا قانونی جب وہ مادری زبان میں ادا کئے جائیں گے تو ان کا معیار غیر مادری زبان کے مقابلہ میں زیادہ بلند اور عام فہم ہوگا لیکن غیر مادری زبان میں بلند افکار و خیالات کو عام فہم بنانا قطعی ناممکن ہے۔ اسی لئے غیر مادری زبان کے ذریعہ بسرعت علوم و فنون عوام میں نہیں پھیلے ہیں۔ غیر مادری زبان کے ذریعہ عوامی زندگی کو اعلیٰ علوم و فنون سے جلد از جلد مزین اور آراستہ نہیں کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں غیر مادری زبان کے ذریعہ کسب علوم کرنے والی قوم ان قوموں کے مدمقابل کھڑی نہیںہوسکتی جو اپنی مادری زبانوں کے ذریعہ علوم و فنون حاصل کررہی ہیں۔بعض اہل علم و دانش کا یہ خیال کہ زبان اردو ہند و مسلم اتحاد کا عطیہ ہے میرے نزدیک غلط ہے۔ ہندوستانی زبان جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور جس کا نام لوگوں نے اردو رکھ دیا ہے اسلامی تمدن کی شاندار تخلیق ہے۔ اسلام جب عربی رسم الخط کے ساتھ دنیا میں پھیلا تو دجلہ سے مغربی ساحل مراکش تک اس نے تمام قوموں کو عربی زبان کا ایسا گرویدہ بنالیا کہ آج وہاں کی مقامی زبانوں کی تاریخ بھولا ہوا افسانہ بن گئی۔ دجلہ سے مشرق انڈونیشیا تک مختلف قوموں نے اسلامی پیغام تو قبول کرلیا مگر عربی زبان قبول نہیں کی‘ عجمیوں نے عربی زبان سیکھنے سے پہلو تہی کی لیکن عربی رسم الخط کے سامنے انھیں بھی ہتھیار ڈالنا پڑا۔ اسلامی انقلاب کا یہ ایک شاندار کارنامہ ہے کہ اس نے مغرب میں مقامی زبانوں کی جگہ عربی زبان اورمشرق میں مقامی رسم الخط کی جگہ عربی رسم الخط رائج کردیا۔ عربی رسم الخط سے مربوط جوزبان ہندوستان میں تیار ہوئی وہ اسلامی قوتوں کی مفتوحہ اور مقبوضہ مخلوق ہے اورمسلمانوں کی قوت تسخیر کا شاندار نمونہ۔ (ختم شد)
اُردو زبان انگریزی سے زیادہ زرخیز ہے
Feb 02, 2021