جوبائنڈن انتظامیہ اور ہماری خارجہ پالیسی کا امتحان 

Feb 02, 2021

اختر گیانی

تیسرا واقعہ۔۔ 2016ء میں افغا نستان میں نیٹو فورسز کو طالبان کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا ۔ اور صدر اوبامہ بھی اپنی فورسز کو نکالنے کاسوچنے لگا تھا ۔ کابل کے نزدیک طالبان نے نیٹو فورسز کے ایک پٹرولنگ دستے پر حملہ کر کے 58فوجی ڈھیر کر دیئے ۔ یہ حملہ اتنا خوفناک اور اچانک تھا کہ نیٹو فوجیوں کو سنبھلنے کا وقت ہی نہ مل سکا اگرچہ اس سے قبل نیٹو کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہیں آیا تھا ۔ امریکی حکومت کو یہ واقعہ برداشت نہ ہوا ۔ صدر اوبامہ نے اس وقت کی چیئرپرسن سلامتی امور کملا ہیرس کو اس واقعے کے پیچھے لگا دیا کہ طالبان کو نیٹو فورس کی اطلاعات کس ذرائع سے پہنچیں جس پر کملا ہیرس نے ایک ما ہ کے اندر رپورٹ صدر اوبامہ کو پیش کی کہ یہ واقعہ پاکستانی فورسز کی معاونت سے ہوا ہے جس پر صدر اوبامہ نے پاکستانی امداد کو روک دیا ۔ اور سلامتی کونسل میں بھی بھارت کی طرف واضح رخ کر دیا ۔ جس کی تپش اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف برداشت نہ کر سکے اور انڈین وزیراعظم نریندرمودی سے تعلقات بڑھا کر ثابت کرنے کوشش کی گئی کہ ہم طالبا ن کے خیر خواہ نہیں ۔جس کملا ہیرس نے یہ رپورٹ تیار کر کے پیش کی وہ انڈین نژاد ہے اس کی والدہ شیاملہ گوپالن بھارتی سفاتکارپی وی گوپالن کی بیوی تھی وہی کملا ہیرس اب جوبائیڈن کی نائب صدر ہیں اس کے علاوہ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہورہا ہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار 12بھارتی نژاد شخصیات امریکی صدر کی سرکاری ٹیم میں شامل ہو رہی ہیں ۔نیراف ٹینڈن وائٹ ہاوس کی مینجمنٹ اور بجٹ کی ڈائریکٹر ہو گی ڈاکٹر ووک مورتھی سرجن جنرل ، ونیتا گپتا ایسوسی ایٹ اٹارنی جنرل ،ایشا شاہ وائٹ ہائوس کی ڈیجیٹل آفیسر،گوتم رگوان صدر کے دفتر میں ڈپٹی ڈائریکٹر ، راما مورتی ڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل اکنامک کونسل ودیگر ہونگے ۔ماضی کے حالات آپ نے ملاحظہ کئے میں اپنے ایشو کی طرف جانے سے پہلے حال پر بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عربوں نے اسرائیل کو تسلیم کر نے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے کچھ کر چکے ہیں کچھ کرنے کا فریم ورک تیار کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی فوج اور عمران خان نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ جغرافیائی طور حل نہیں کیا جاتا تب تک اسرائیل کے ایشو پر بات کرنا بے معنی ہے۔بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جو ہمیں پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ اب امریکی حکومت میں ایک مضبوط بھارتی لابی موجود ہے جس پر امریکہ سے خیر کی توقع نہیں کرنی چاہیے ۔پاکستان میں عمران خان وزیر اعظم ہے جس کے متعلق امریکہ کافی سٹڈی کر چکا ہے کہ یہ بلا لالچ اور ضدی انسان ہے مزید پاک آرمی کا مزاج ماضی کی نسبت بہت بدلا ہوا ہے اب عمران خان اور پاک آرمی ایک دوسرے کو کھونا نہیں چاہتے ۔ پاکستان پر کوئی بھی ماحول مسلط کرنے کیلئے کافی محنت اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے دوسری طرف پاکستانی معیشت کی کمزوری بہت بڑا یشو ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اس سے ہٹ کر اندرون خانہ اپوزیشن کا کردار بہت معنی خیز ہے خصوصاً(ن) لیگ اور مولانا فوج اور عمران خان کو ہرانا چاہتے ہیں اور اس کام میںوہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں بیرونی طاقتیں اور اپوزیشن مل کر زور لگائیں تواس کا رزلٹ اچھا نہیں ہو سکتا ۔ میں اپنے ایشو کی طرف آتا ہوں۔ آپ ماضی اور حال کو سامنے رکھیں اور مستقبل کا تصور کریں کہ ہمارا مستقبل کیسا ہوگا ۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا امتحان ہے کہ یہ جنرل لائیڈ آسٹن وزیر دفاع، بلنکس وزیر خارجہ اورکملا ہیرس نائب صدر کو کیسے ہینڈل کرتی ہے ۔اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔…… (ختم شد)

مزیدخبریں