چڑھدے پنجاب پر قیامت اور ہم خاموش کیوں 

Feb 02, 2021

مطلوب وڑائچ

تاریخ میں پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ کسان اپنے حقوق کے حصول کیلئے اس طرح متحد ہوئے ہیں۔ بھارت میں کسانوں نے مودی کے اپنے سپورٹرز انویسٹرزاورپرموٹرز کو نوازنے کے قانون نے بھارتی کسانوں کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد کر دیا ہے۔ تمام تر رکاوٹیں توڑ کر ہندوستان کے سب سے زیادہ سیکورٹی کے حصار میں شہر دہلی جو دارالحکومت بھی ہے کو تاراج کر دیا۔ اتفاق سے بھارت میں زیادہ تر کسان سکھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور کسانوں کی اس تحریک میں خالصتان کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ سکھوں کو اپنے اوپر ہونے والے کانگریس دور کے مظالم اور مودی سرکار کے متعصبانہ معاندانہ اور جارحانہ رویے بھی برانگیخت کرنے لگے۔ سکھوں کی طاقت کو منتشر کرنے کیلئے پنجاب کے تین حصے کر دیئے گئے۔ایک صوبے سے ہریانہ اور ہماچل پردیش نکال لئے گئے۔ سکھ اس تقسیم کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں اور پھر گولڈن ٹمپل پر حملے اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سمیت ہزاروں سکھوں کو بچوں اور عورتوں سمیت قتل نے سکھوں کو خالصتان کے قیام کی تحریک کی طرف زیادہ شدت سے مائل کیا۔ آج کسان تحریک میں خالصتان کی جھلک بھی کہیں نہ کہیں نظر آتی ہے۔
آج دہلی میں 23لاکھ سکھ جمع ہو چکے ہیں۔ ان پر فائرنگ کی جاتی ہے، آنسو گیس پھینکی جاتی اور پھر موسم بھی ستمگر ہے۔ شدید سردی ہے مگر سکھ دہلی کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ 26جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر سکھوں نے لال قلعہ سے ترنگا اتار کر اپنا شان صاحب لہرا دیا۔اب یکم فروری کو کسان نئے جوش وجذبے سے دہلی کے گھیرائو کیلئے آرہے ہیں۔ان روکنے کیلئے را نے دہلی میں اسرائیلی سفارتخانے پر دھماکہ کرادیا اب سیکورٹی کا جواز بنا کر مظاہرین کو دہلی میں داخل ہونے سے روکا جارہا ہے۔مودی سرکار انتقام میں اندھی ہو گئی ہے۔ ہریانہ کے 15 اضلاع میں مودی سرکار نے انٹرنیٹ بند کر دیا۔ ہریانہ کے جن اضلاع میں یہ پابندی لگائی ہے ان میں انبالہ، یمنا نگر، کروچھیتر، کرنال، کیتھل، پانی پت، حصار، جنید، روہتک، بھوانی، چرخی دادری، فتح آباد، ریواڑی اور سرسا شامل ہیں۔اُدھر مودی سرکار نے بوکھلاہٹ میں کئی سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کر لئے ہیں۔ ان پر کسانوں کو پرتشدد مظاہروں کی ترغیب دینے کا الزام ہے۔ایف آئی آر میں معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی، نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آواز کے مدیر ظفر آغا اور کارواں میگزین سے وابستہ اننت ناتھ اور ونود جوز بھی شامل ہیں۔ میری منال پانڈے سے فون پر بات ہوئی تو انکا کہنا تھا کہ حکومت ایسے اقدامات سے آزادی اظہار کو کرش کرنا چاہتی ہے مگر ہم وہی کہیں گے جو سامنے نظرآتا ہے۔
 ریاست اترپردیش اور مدھیہ پردیش کی پولیس نے 26 جنوری کو مبینہ طور پر لال قلعے کی فصیل پر سکھ مذہب کا پرحم نصب کرنے اور پرتشدد مظاہروں پر اکسانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما ششی تھرور اور ملک کے دیگر چھ سرکردہ صحافیوں کیخلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے ہیں۔ ایف آئی آر میں معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی، نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آواز کے مدیر ظفر آغا اور کارواں میگزین سے وابستہ اننت ناتھ اور ونود جوز کے نام بھی شامل ہیں۔
ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے۔ بھارت بلوچستان میں جو کر رہا ہے اس سے پوری دنیا آگا ہ ہے۔ اور پھر بھارت سب کچھ اعلانیہ کرا رہا ہے۔ ہم بھارت کی بھارت میں داخل ہو کر سکھوں کی مدد کرتے ہیں نہ کشمیر کے اندر ہماری مداخلت ہے مگر اخلاقی طور پر ہمیں سکھوں اور کشمیریوں کی حمایت کا حق حاصل ہے۔ آج کشمیر اور چڑھدا پنجاب میں علیحدگی کی تحریک زوروں پر ہیں۔ ہم دنیا کو تو ان تحریکوں اور مودی سرکار کے اقلیتوں پر مظالم سے آگا ہ کر سکتے ہیں اور آج ایسا پوری قوت اور شدت سے کرنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ موقع بھی ہے۔ دو پنجاب کا جو کہ ایک ہونا ناقابل فہم ہے مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔ گریٹر پنجاب اگر اس صورت میں بنتا ہے کہ سکھ چڑھدا پنجاب کو آزاد کرا کے پاکستان میں شامل کرا دیں تواس میں کیا حرج ہے۔ان کو اپنے مقدس ترین مقامات بابا گورونانک کی جنم بھومی ننکانہ اورجائے انتقال کرتار پور تک رسائی ہوجائے گی اورپنجاب بھی گریٹر بن جائے گا۔چڑھدا پنجاب جسے تقسیم کرکے 1947ء میں مستقلاً بھارت کے حوالے کر دیا گیا ۔جہاں کی اکثریتی حکومت ہندوئوںکی تھی جنہوں نے اپنے حصے میں آئے پنجاب کے مزید تین ٹکڑے کر دیئے اور یوں ہریانہ ،چندی گڑھ اور پنجاب کے صوبے بنے۔تقسیم کے 70سال بعد سکھوں کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ ہماری سکھ قیادت (ماسٹر تاراسنگھ)نے ہمیں وہ عظیم نقصان پہنچا دیاہے کہ جس کی تلافی آگ اور خون کے کتنے سمندر پار کرکے شاید ممکن ہو۔وقت کے ساتھ ساتھ چڑھدے پنجاب کے باسیوں کو یہ بھی تجربہ ہوا کہ پنجاب کے سکھوں کو تقسیم کرکے ان کیلئے انتہائی معتبرک ننکانہ ، کرتارپور اور دیگر مذہبی مقامات تو سکھوں کے پاس موجود ہی نہیں تھے۔ 70سال بعد عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان اور جنرل باجوہ کی کاوشوں کی وجہ سے کرتارپور کو ایک کوریڈوربنا کر ایک عظیم پلیٹ فارم دیا گیا مگر بھارت کا ہندو بنیا پنجاب کے پھلتے پھولتے کسانوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا وہ اسی کوشش میں لگا رہا کہ پنجاب کے کسان جو معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں تاریخی اور اجتماعی خودکشیاں کرنے لگے تھے انکی رگوں سے مزید خون نچوڑنے کیلئے پنجاب اور ہریانہ کے سارے کسانوں کو امبانی جیسے سرمایہ داروں کے آگے پھینک دیا گیاتاکہ وہ اپنی مرضی سے رفتہ رفتہ ان کا خون نچوڑ سکیں۔جسے پنجاب اور ہریانہ کے غیرت مند کسانوں نے قبول نہ کیا اور آج کروڑوں کسان آزادی کیلئے برسرِپیکار ہیں ۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں