لاہور ہائیکورٹ نے گاڑیوں کے ای چالان کے خلاف عدالتی حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت شرم کرے کہ جب قانون موجود نہیں تو ای چالان کیسے کئے جا رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے 2019-20ء میں لاکھوں ای چالان کر کے عوام کو لوٹا کُھسوٹا ہے۔ ای چالان کے نام پر حکومت نے جو غدر مچایا ہے۔ اس سے لوگوں میں بلاوجہ کا خوف و ہراس پیدا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت عوام کو نفسیاتی مریض بنا رہی ہے۔ اپنی خواہشات اور ضروریات کا گلا گھونٹ کر وہ گاڑی، زیور، کپڑا، مکان یا پلاٹ خریدتے ہیں لیکن موجودہ حکومت ہر آدمی کے اثاثے کھنگالنے پر لگی ہوئی ہے۔ پہلے تو یہانتک غضب کر رکھا تھا کہ پچاس ہزار روپے کی چیزبھی خریدو تو اپنے شناختی کارڈ کی کاپی لگائو اور جو اب دہ کہ یہ رقم کہاں سے حاصل کی ہے۔ ہر سال ٹیکس کے لمبے چوڑے فارم پُر کرو کہ دو گاڑیاں اور ایک گھر ایک پلاٹ ہم نے کہاں سے حاصل کیا ہے جبکہ حکومت ہر تنخواہ اور ہر چیک پر نان فائلر کی صورت میں 20فیصد ٹیکس کاٹتی ہے اور فائلر سے دس فیصد ٹیکس وصول کرتی ہے۔ حکمران ہر وقت یہی راگنی الاپتے ہیں کہ جی پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ آئیے آج آپ کو حقیقت بتائیں کہ پاکستانی عوام دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی قوم ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ نومولود بچے ہی نہیں، وہ بچے بھی جو اپنی مائوں کے پیٹ میں ہیں۔ وہ ٹیکس دے رہے ہیں اور ٹیکس دینے کے باوجود مقروض ہیں اور انہیں صاف پانی تک میسر نہیں۔ مائیں جو دوا اور غذا کھاتی ہیں۔ اُس پر ٹیکس لگتا ہے۔ ڈاکٹروں کو جوفیس ادا کرتی ہیں۔ آنیوالے بچے کیلئے ایک کٹ سے لیکر ایک نپل تک جو بھی خریدتی ہیں۔ اُس پر ٹیکس دیتی ہیں۔ جس چھوٹے بڑے ہوٹل سے کھانا کھاتی ہیں یابچہ کیلئے کپڑے کھلونے خریدتی ہیں۔ اُس پر ٹیکس دیتی ہیں۔ حکومت کو اس بات سے کو ئی دلچسپی نہیں کہ کو ئی بھوکا سو رہا ہے یا کوئی بیروزگار ہے یا آپ نے مہنگائی دو سو فیصد کر دی ہے مگر سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں میں دس فیصد بھی اضافہ نہیں کیا تو محدود آمدن والے کیسے دو سو فیصد مہنگائی برداشت کرینگے۔ پرائیوٹ ادارے آدھی تنخواہیں دے رہے ہیں ا ور بہت سے ادارے تو کئی کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں دے رہے تو لوگ آخر کیسے گزارہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے ای چالان کے نام پر کروڑوں روپیہ کمایا ہے اور ٹول ٹیکس پر حکومت کو سالانہ ، ماہانہ یا ہفتہ وار نہیں۔روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ وہ کہاں جاتی ہے؟ ابھی پنجاب اسمبلی میں محکمہ خزانہ نے بتایا ہے کہ کرونا فنڈ میںایک ارب سولہ کروڑ آئے لیکن متاثرین پر ایک روپیہ خرچ نہیں ہوا۔ ہر روز کرونا سے مرنے والوں کی خوفناک تعداد بتائی جاتی ہے ۔یہ سب غریب اور متوسط لوگ ہیں۔ یہ اس لئے مر جاتے ہیں کہ انکے پاس علاج کیلئے وافر رقم نہیں ہوتی۔ کرونا سے ہر امیر آدمی ٹھیک ہو جاتا ہے، صرف غریب مر جاتے ہے تو حکومت سوا سال سے یہ رقم کیوں دبا کر بیٹھی ہوئی ہے؟پنجاب میں چوری ڈکیتی، اغواء قتل اور گاڑیاں چھیننے کے وارداتوں میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔ چوریاں اور ڈکیتیاںیا اغواء قتل و غارت زیادہ تر ملک میں غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ پنجاب میں 2020ء میں ساڑھے چار ہزار گاڑیاں چھیننے اور 4000چوری کے مقدمات درج ہوئے ہیں جبکہ ایک سال میں 365دن ہوتے ہیںاور اسکے علاوہ ہزاروں کی تو رپورٹ ہی نہیں کرائی جاتی یا کی جاتی۔ حد تو یہ ہے کہ ملک بھر میں چھ ہزار اشیاء کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ 2020ء میں سالانہ دس ہزار افراد نے خودکشیاں کی ہیں۔ اور نج ٹرین عوام کیلئے ایک مصیبت کے طور پر نازل ہوئی تھی۔ لاہوریوں نے مسلسل چھ سال عذاب برداشت کیا۔ دن رات آلودگی،شور اور گندگی برداشت کی۔ لاہور کی سڑکوں پر چلنا عذاب تھا۔ گاڑیوں اور پراپرٹیز کی شکلیں بگڑ گیئں۔ اب اللہ اللہ کر کے لاہوریوں کو ایک سہولت ملی ہے تو حکومت نیب دانستہ اخراجات کا رونا شروع کر دیا ہے۔ پہلے بھی عوام کے اربوں روپے سے یہ ٹرین بنی اور اب حکومت پھر اخراجات کا رونا رُو کر کرائے بڑھانے کا ڈرامہ کر رہی ہے۔ بار بارکہا جا رہا ہے کہ 23ارب کا نقصان ہو ا ہے۔ تو کیا یہ نقصان حکومت نے ادا کیا ہے۔یہ خسارہ اور خرچہ عوام کی جیبوں سے کیا جا رہا ہے جبکہ عوام اورنج ٹرین کا کرایہ فی کس سواری 40روپے ادا کرتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے صحیح لتاڑا ہے۔ پورا ملک مہنگائی کی دلدل میں دھنسا ہو اہے اور کہتے ہیں کہ مہنگائی میں کمی کے بہترین نتائج آ گئے ہیں۔ مہنگائی کی شرح پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے کم ہے۔ لوگ مہنگائی، غربت سے مر رہے ہیں۔ ٹیکسوں اور بلوں سے اعصابی مریض بن رہے ہیں مگر فرما رہے ہیں کہ جی معاشی شعبہ ترقی کر رہا ہے۔ معاشی شعبہ تو صرف وزیروں، مشیروں، ارکان اسمبلی کا ترقی کر رہا ہے۔ آپ نے اپنی تنخواہ دو لاکھ سے آٹھ لاکھ کر لی۔ دس لاکھ کے آپکو دوسرے فنڈز ملتے ہیں۔ اسکے علاوہ آپکے دیگر اخراجات الگ ہیں۔ ایک غریب مزدور کو تو دیہاڑی کے ایک ہزار بھی نہیں ملتے۔ پٹرول آپکے دُور ِحکومت میں بیسیوں مرتبہ مہنگا کیا جا چکا ہے اور اب پھر مزید مہنگا کر دیا ہے۔ ایک طرف نیب کہتا ہے کہ وہ اربوں روپے مالیت کے جرمانے کر کے قومی خزانہ میں جمع کرا چکا ہے۔ ایک طرف شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ ہم نے دو دن میں 24 ارب روپے کی زمین وا گزار کرائی ہے۔ ایک طرف کرونا کی امداد کے سلسلے میں اربوں روپیہ ملا۔ پاکستان کو سعودی عرب، چین، امریکہ سمیت کئی ممالک سے اقتصادی امدادیں ملی ہیں۔ لگ بھگ آٹھ ممالک نے پاکستان کو کروڑوں ڈالر فنڈز دیئے ہیں۔ بھاشا ڈیم کے حوالے سے پاکستان اور اوورسیز پاکستانیوں نے اربوں روپیہ اکھٹا کر کے دیا۔ کرونا کے حوالے سے مخیر حضرات نے حکومت کو بے تحاشہ پیسہ دیا ہے۔ ہر ماہ ہر سال حکومت پاکستان کو ٹیکسوں کی مد میں کھربوں روپیہ ملتا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ انہوں نے اللیّ تللیّ ختم کر دئیے ہیں۔ شاہانہ اخراجات ختم کر کے سادگی اپنائی ہے جس سے ہر ماہ کروڑوں روپیہ بچتا ہے۔ یعنی ان ڈھائی سالوں میں اس حساب سے ستر ارب روپے بچائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہر ماہ کھربوں روپیہ قومی خزانے میں آتا ہے تو حکومت کھربوں روپے کو کہاں ٹھکانے لگاتی ہے۔ حکومت ہر وقت عوام کے اثاثوں کے پیچھے لگی رہتی ہے جو عوام محنت سے کماتی ہے لیکن حکومت بغیر محنت کے جو کھربوں روپیہ ہر مہینے حاصل کرتی ہے۔ وہ آخر کہاں خرچ کرتی ہے۔ اس سوال کا حکومت کو جواب دینا پڑے گا کیونکہ یہ ہمارے خون پسینے کی کمائی ہے جس پر ہمارا حق ہے مگر اِسے کھاتی حکومت ہے۔ حکومت بتائے کہ وہ یہ پیسہ کہاں لگاتی ہے؟؟؟
مہنگائی اور ای چالان
Feb 02, 2021