زرداری‘ آج بھی بھاری 

یہ سوال عام اور اہم ہے کہ کیا پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے کو ہے‘ تحریک عدم اعتماد پر ڈٹ گئی ہے۔ ’’نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘‘ تحریک عدم اعتماد کے حشر کا نام ہے۔ پیپلزپارٹی کسی شکل میں اسٹیبلشمنٹ سے بگاڑ پیدا نہیں کریگی۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے مشکلات اس قدر نہ ہوں کہ اسمٹیبلشمنٹ میں اس کیلئے پایا جانے والا نرم گوشہ ختم ہو جائے۔ چنانچہ وہ کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف فیصلہ کن جنگ کا حصہ نہیں بنے گی۔ جمعیت علماء اسلام دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا فضل الرحمان دو دھڑوں میں بٹ چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کو بعض اختلافات کا سامنا ہے اور اسکی ایک وجہ ایک جماعت ہے جو پی ڈی ایم کو محض اپنے مفادات کیلئے استعمال کررہی ہے۔ جو اس اتحاد کیلئے باعث نقصان ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ براڈشیٹ نامی نام نہاد کمپنی نے معاہدے کا دس فیصد بھی کام نہیں کیا پھر بھی پاکستان سے خطیر رقم وصول کرلی۔ 2000 میں کمپنی سے معاہدہ ہوا اور 2003ء میں ختم کر دیا گیا۔ حکومت کو چاہیے براڈشیٹ اور نیب کے معاملے کو اچھالنے کے بجائے عوامی مشکلات کے حل پر توجہ دے۔ اسی سے حکومت کے حق میں نتائج نکلیں گے۔ حکومت فی الحال 18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے کے بجائے اس آئین کی مختلف شقوں پر عملدرآمد روک کر اپنا کام آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ ایف آئی اے‘ فوج‘ نیب‘ ایف بی آر‘ بیوروکریسی اور عدالتوں کے ذریعے کرپشن نہ پکڑی جائے بلکہ مالیاتی ماہرین کے ذریعے کرپشن پکڑی جائے۔ آڈیٹرز کو ہی مالیاتی ماہرین کہا جاتا ہے۔ ٹیکس لینے والے ہی ٹیکس چوری کا راستہ دکھاتے ہیں۔ ٹیکس‘ بجلی گیس چوری کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ آئندہ تین سال میں 44 اداروں کی نجکاری کا اعلان ہوا ہے۔ نجکاری کا نام سنتے ہی ورکرز سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں۔ ایمانداری سے کام کرتے ہوئے انہیں کیوں ڈر لگتا ہے۔ سرکاری ملازمت کے موج میلے اتنے ہیں کہ پرائیویٹ ملازمت قید خانہ دکھائی دیتی ہے۔ سیلز مین کے بارہ بارہ گھنٹے کھڑے نہیں ٹنگے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے مالز میں لڑکیوں کی حالت زار دیکھ لیں۔ 
جسٹس عظمت سعید کا ایک رکنی کمیشن براڈ شیٹ کے علاوہ حدیبیہ اور سرے محل کی بھی تحقیقات کریگا۔ نیب اور احتساب کے ادارے اپوزیشن کو کرپٹ قرار دیتے ہیں۔ انصاف کے ایوانوں سے عوامی توقعات کم ہی پوری ہوتی ہیں۔ براڈ شیٹ کے معاملے کی ایسی شفاف تحقیقات کرنی چاہیے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ سیاسی فیصلوں کے نتائج سے ملکی سیاست اوپر نیچے ہو کر رہ گئی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ 1985ء سے لیکر اب تک کے 35 سال میں کون کتنا کرپٹ تھا۔ کون احتساب سے مخلص تھا اور کس نے نیب کو کیس کیخلاف استعمال کیا۔ اس وقت سیاست کی کئی جہتیں ہیں۔ احتجاجی سیاست اور مصلحت کی سیاست نمایاں ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو تنہا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ سینٹ انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہیں۔ اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفوں کی قربانی نہیں دے سکتی‘ وہ کوئی بڑی قربانی کیا دیگی۔ پیپلزپارٹی کو ڈھیل مل گئی ہے‘ پی ڈی ایم بطور سیاسی اتحاد قائم رہے گا جیسے عملاً بے اثر او آئی سی ہے۔ اس وقت زرداری سب پر بھاری ہے۔
 آئندہ انتخابات تک ن لیگ پیپلزپارٹی اور مولانا ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم اور ڈھال ہیں۔ مولانا سٹریٹ پاور کے اسلحے سے لیس ہیں۔ ملک میں آئین اور میرٹ سے زیادہ نظریہ ضرورت کی حکمرانی رہی۔ تاہم عمران خان نے 1995ء سے اب تک کرپشن کیخلاف بھرپور تحریک چلائی ہے۔ سیاست کو کرپٹ کس نے کیا‘ سول سروس کو سیاست زدہ کس نے کیا‘ این آر او کا موجد کون تھا‘ سول سروس میں آگے بڑھنے کا پیمانہ کون طے کریگا‘ سینیارٹی یا کارکردگی‘ سینیارٹی میں ہر گدھا گھوڑا برابر سمجھے جاتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں سول سرونٹس کی کارکردگی کو ترقی کا زینہ بنایا جاتا ہے۔ دو خاندانوں سے ہٹ کر بھی درجنوں خاندان ’’چورڈاکو‘‘ ہو سکتے ہیں۔ ان کا کچھا چٹھہ کون کھولے گا۔ اقتدار کی میز کے گرد دو خاندان ہی منڈلاتے رہے ہیں لیکن یہ بھی پہلے سلیکٹڈ تھے پھر الیکٹڈ ہوئے۔ 
سینٹ الیکشن پیپلزپارٹی کیلئے ٹیسٹ کیس ہوگا۔ نوازشریف کو تحریک عدم اعتماد پر راضی کرنے کیلئے زرداری کو کرشمہ دکھانا ہوگا۔ ناکامی پر لانگ مارچ کیلئے اپوزیشن اتحاد‘ پیپلزپارٹی کا انتظار نہیں کریگی۔ حزب اختلاف کی دونوں بڑی پارٹیوں کے مابین اعتماد کا فقدان بڑھنے لگا۔ مولانا فضل الرحمان کے نزدیک پی ڈی ایم میں کوئی اختلاف نہیں۔ 70 فیصد مقاصد حاصل کر چکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کے ماضی سے نکل کر مستقبل کی بات کی جائے۔ اب فیصلہ کن سیاسی لڑائی گیم پر ہے۔ ن لیگ ان ہائوس تبدیلی کی زبردست ناقد رہی ہے اور وہ اس آپشن کو منتخب ایوانوں کی ساکھ تسلیم کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ وفاق میں ان ہائوس تبدیلی کی کوئی روایت نہیں۔ ن لیگ نہیں چاہتی۔ جنوبی پنجاب میں کھینچا تانی جاری ہے۔ جنوبی پنجاب کی اکثریتی آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ یہاں کی صنعت بھی زراعت سے جڑی ہے۔ کپاس کی فصل متاثر ہونے سے یہاں کی زندگی پر بھی اثرات نظر آتے ہیں۔ فی الحال ترقیاتی پیکجوںسے دل بہلایا جارہا ہے۔ صحت کا نام مسلسل بگاڑ کی طرف جا رہا ہے جو بھی چیز حکومت ے بس سے باہر ہو‘ اس کا ملبہ مافیاز پر ڈال دیتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے گورنر کے سامنے جامعات کے مالی و انتظامی بحران سامنے لائے گئے تو انہوں نے الزام مافیاز پر ڈال دیا‘ گویا پورا ملک مافیاز کی زد میں آیا ہوا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں‘ گداگری‘ منڈی مافیاز‘ گندم‘ چینی مافیا‘ الغرض کون کون سے مافیا کو گنوایا جائے۔ ناجائز کمایاں کرنے والے گروہ کا نام مافیا ہے۔ حد سے زیادہ منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی اور ملازت کرنے والے مافیا ہی تو ہیں۔
اپوزیشن ایک نہیں سو بار تحریک اعتماد لا کر دیکھ لے‘ فضل الرحمان‘ بند گلی کی طرف جا رہے ہیں۔ حکومت گرانے کی پی ڈی ایم کی خواہش انکے دل میں ہی رہ جائیگی۔ اپوزیشن اپنی تسلی کرلے لیکن عمران خان ہی 2023ء تک وزیراعظم ہیں۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کا مقصد ان اضلاع کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ ہر محاذ پر ناکامی کے بعد پی ڈی ایم اب محفوظ راستے کی تلاش میں ہے۔ عوام منتخب حکومت گرانے کی خواہش رکھنے والوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ ایک محاذ اپوزیشن کھولتی ہے تو تین محاذ حکومت کھولتی ہے۔ گو کہ حکومت اوراپوزیشن براڈشیٹ کے حوالے سے اپنی اپنی فتح کے دعوے کررہے ہیں۔ لیکن انحصار نتائج پر ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان غیرمبہم الفاظ میں باربار عسکری شخصیات اور اداروں کو موردالزام ٹھہرا چکے ہیں۔ راولپنڈی میں دھرنا دینے کی بات بھی کرچکے ہیں۔ عسکری قیادت نے متعدد بار یہ واضح کیا ہے کہ وہ عوام کی منتخب حکومت کی حمایت اور یدایات پر عمل کرنے کے آئینی و قانونی طور پر پابند ہیں۔ احتجاجی نہیں‘ پارلیمانی سیاست میں ہی جمہوری بقاء ہے۔ پی ڈی ایم نے فروری میں جلسے جلوسوں اور ریلیوں کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز احتجاجی سیاست کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ سندھ میں نئی مردم شماری کیلئے سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ نئی مردم شماری کے بعد صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ گورنر سندھ نے اعلان کیا ہے کہ 2023ء کے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہونگے۔ 
٭…٭…٭

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن