بابا جی کی بات جب یاد آتی ہے تو سینہ چوڑا ہو جاتا ہے وہ کہا کرتے تھے پتر اللہ پاک نے کائنات بنائی پھر اس کو بسانے کیلئے انسان بنائے اور پھر اپنے بنائے ہوئے انسان سے محبت کی۔ اور جس جس انسان سے محبت کی اسے اپنے حبیب ﷺ کی اُمت میں پیدا کر دیا ۔
انسان غلطی کا پتلا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات کا غلام بھی ہے اور افسوس کہ "اللہ کی مہلت کو اپنی طاقت سمجھ لیتا ہے"زندگی میں میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ آج کی دنیا میں بے حیا کو خوبصورت، دھوکے باز کو عقلمند اور ایماندار کو لوگ بیوقوف سمجھتے ہیں اور لوگ کہتے نظر آتے ہیں کہ بس آدمی کو امیر ہونا چاہیے۔ میںکہتا ہوں کہ آدمی کا ضمیر ہونا چاہیے اور پاک پرودگار پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ وہ آپکے لیے بہتر کرے گا اور اگر بہتر نہ کیا تو یقین رکھو کہ "اللہ بہترین کرے گا"۔میرا اس پر پکا یقین ہے اسی لیے امید ہے کہ :
پلٹ کر آئوں گا شاخوں پہ خوشبوئیں لے کر
خزاں کی زد میں ہوں موسم ذرا بدلنے دے
زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں اور پھر یہی حقیقت آشکار ہوئی کہ ضروری نہیں جب کسی کا دل دکھائو تو وہ زبان سے بددعا دے بلکہ جب بھی وہ آپکی وجہ سے اللہ کے سامنے روئے گا تو وہ آپکو بہت مہنگا پڑے گا۔ اسی لیے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام فرماتے تھے اس شخص سے مت ڈرو جو بدلہ لینا جانتا ہو بلکہ اس سے ڈرو جو اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ دے۔
سیاست ایک بے رحم کھیل ہے اور اس وقت یہ زیادہ خطرناک بن جاتا ہے جب انسان قومی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دینا اپنا طرئہ امتیاز بنا لے۔ میں پریکٹیکل طور پر زندگی میں ایسے ریگزاروں سے بھی گزرا ہوں جہاں وفا کی کوئی قیمت نہیں ہوتی بلکہ آپ جتنے مخلص ہوتے ہیں اتنے ہی گھٹیا لوگوں سے آپکا واسطہ پڑتا ہے اور پھر کبھی کبھی اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ "اللہ کے سوا کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہتا"اور پھر سبق سیکھا ہے کہ کم ظرف لوگوں سے کم ظرفی سے پیش نہ آئے بس خاموش رہے، مضبوط رہے اورآگے بڑھتا رہے یہ جینے کا فن ہے کہ اپنی انرجی بھی کم ظرفوں پر ضائع نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ زندگی میں دکھ آئیں تو حضرت علی ؓ کے فرمان کو مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ "اگر دکھ نہ ہوتے تو میں اپنے رب کے ساتھ دعا کا رشتہ کیسے نبھاتا"۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ" لفظوں کے زخم جھیلنے کے بعد بھولنے کا فن یا تو پاگل کو آتا ہے یا کامل کو "۔ دنیا ہمارے پیچھے پڑی ہے اور ہم ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں اور بھول گئے ہیں کہ قوموں کی تباہی اور بربادی نفاق سے ہوئی ہے اوراتفاق سے قومیں دنیا میں اپنا لوہا منواتی ہیں۔ یقین جانیں ہمیں پاکستان میں نام نہاد سیاستدانوں کی بد زبانی بہت مہنگی پڑے گی ۔ دنیا میں بحیثیت قوم ہمارا امیج خراب ہو رہا ہے ۔ جب قومی ترجیحات کی بجائے ذاتی انا کی تسکین کیلئے ہم اپنی ہی عزت کرنا بھول جائیں تو اپنے ضمیر کی عدالت میں ضرور جائیں جہاں سے تمھیں اپنی اوقات کا اندازہ ضرور ہوگا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اپنوں کی غلطیاں بھی اپنی ہی ہوتی ہیں انھیں مل جل کر سدھا رلینا چاہیے۔ انا ، تکبر کی دستار باندھ کر دوسروں کے جھکنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ۔
"یہی رشتوں کی بقا کا راز ہے ۔ "
آج وقت نے ہمیں ایک دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایک طرف بربادی اور دوسری طرف خوشحالی ہے ہمارے لیڈران کرام کو صرف یہ سوچنا ہے کہ یہ قوم کتنی سادہ ہے ہر لیڈر کی بات پر یقین کر لیتی ہے اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا بقول شاعر:
ہم سادہ ہی کچھ ایسے تھے کی یوں ہی پزیرائی
جس بارخزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
اس ملک پر ہر بار حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں کو اب پاکستان کیلئے اپنا رول ادا کرنا چاہیے اپنے اداروں کو عزت دینے کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں کا بھی ازالہ کرنا چاہیے ۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کی راہ میںجھمگھٹے بنا کر رکاوٹ ڈالنے کا وقت نہیں ہے ۔ کبھی سیاستدانوں نے یہ سوچا ہے کہ آپ بحیثیت سیاستدان کتنے بے نقاب ہو چکے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ بظاہر اتنے بڑے قدو قامت کے لوگ اندر سے کتنے چھوٹے نکلتے ہیں ۔
آج گلی محلوں میں لوگ کس انداز سے آپ کو موضوع بحث بنا رہے ہیں۔ کوئی جمہوریت کوئی کنٹرولڈ جمہوریت کو ختم کر کے نئے نظام کی بات کرتا ہے اور لوگ انکی میڈیا پر فضول بحث و تکرار سے تنگ آکر بس اپنے بچوں کیلئے پریشانی کے عالم میں روشنی کی تلاش میں تبدیلی کو وقت کی ضروت سمجھتے ہوئے نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں ۔
ابھی بھی وقت ہے لوگوں کو اس کیفیت سے نکالیں ۔ یاد رکھیں اگر قوم لیڈر سے بالکل مایوس ہو گئی اور اپنے بچوں کے مستقبل اور دال روٹی کے چکر میں خودبخود Leader Lessہو کر سڑکوں پر نکل آئی تو پھر بربادی کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ لہٰذاسب اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیا ںگزر گئیں
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
ایمان تیرا لُٹ گیا رہزن کے ہاتھوں سے
ایمان تیرا بچالے وہ رہبر تلاش کر
کرے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو
پیدل ہی خود چلے وہ آقا تلاش کر
آج قوم صرف یہ چاہتی ہے کہ ووٹ کو نہیں "قوم کو عزت دو"نفاق کی بجائے اتفاقِ رائے پیدا کرو کہ ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ دشمن کے آلائے کار بن کے نہیں ملک و قوم سے محبت میں پوشیدہ ہے۔ "عقلمند را اشارہ کافی است " قوم کو روشنی دکھائیں سارے لیڈروں سے درخواست ہے۔
جن لوگوں کو اپنے اقتدار کیلئے سڑکوں پر لاتے ہو انھیں تم نے دیا کیا ہے ؟ اب بس کریں بس ۔ اپنی ذاتی ترجیحات پر قومی ترجیحات کو ترجیح دیں۔ یہی وقت کی ضرورت ہے ۔ اس بھولی بھالی قوم کو "آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے "کے چکر سے نکالیں ۔
میری درخواست پر ایک دفعہ ضرور غور فرمائیں کہ :
زندگی کا یہ ہنر بھی آزمانا چاہیے
جنگ کسی اپنے سے ہو تو ہار جانا چاہیے
٭…٭…٭