پرسکون اور خوش رہنے کا آسان طریقہ!!!

آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں ان کی ایک بڑی وجہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انحراف ہے۔ ہم درحقیقت اسلام کے اصولوں کے مخالف سفر کرتے ہیں، کام کرتے ہیں اور ہمارے اعمال اسلام کی حقیقی روح، اللہ تعالیٰ کے احکامات، تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سیرت طیبہ اور صحابہ کی مثالوں پر عمل کرنے کے بجائے اس کے مخالف کام کرتے ہیں۔  ہمیں مال جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے، ہم جمع کرتے ہیں، ہم دوسروں کا حق کھانے سے منع کیا گیا ہے ہم حق کھاتے ہیں، ہمیں آسانیاں پیدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ہم ہر وقت مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہیں، ہمیں درگذر کی تلقین کی گئی ہم بدلہ لینے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں، ہمیں خوش اخلاقی کا درس دیا گیا ہے ہم چیخنے چلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم اتنے بدقسمت ہیں کہ قرآن کریم کی موجودگی میں موٹیویشنل اسپیکرز کے پیچھے بھاگتے ہیں، ہم اتنے بدقسمت ہیں کہ تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو پڑھنے اور عمل کرنے کے بجائے موٹیویشنل اسپیکرز کی کہانیوں پر گھنٹوں صرف کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم سے بڑھ کر کوئی موٹیویشن نہیں ہے۔ ہمیں قناعت کا حکم دیا گیا ہے، کمزوروں کا خیال رکھنے، بزرگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ہمارے رویے اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے سے کم تر کو دیکھیں ہم ہر وقت اپنے سے بہتر کو دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں۔ حسد، بغض، غیبت اور چغلیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان برائیوں میں اتنے دھنسے پڑے ہیں کہ ہسپتالوں کے ہسپتال بھرے پڑے ہیں۔ ہر دوسرا شخص بیمار ہے ڈاکٹروں پر سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں خرچ کر رہا ہے لیکن کوئی سدھرنے کو تیار نہیں ہے۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ تاجدار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جس شخص کو اس کی صورت اور رزق میں فضیلت دی گئی ہو ا سے ایسے شخص کی طرف دیکھنا چاہیے جو اس کی نسبت کم تر ہو اس سے اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو کم تر نہیں جانے گا۔ عون بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں امیروں کی مجلس میں رہا تو مجھے یہی غم رہ گیا تھا تاکہ ان کی سواری میری سواری سے اچھی ہے اور فلاں کے کپڑے میرے کپڑوں سے اچھے ہیں اور جب میں فقراء کی مجلس میں آیا تو پرسکون ہو گیا۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ مسلمان جب لوگوں سے مل جل کر رہے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کریں کرے تو وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی ایذاؤں پر صبر نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کچھ عطا فرما رہے تھے اور میں کہہ رہا تھا کہ یہ آپ اس کو عطا فرما دیں جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر بغیر لالچ کیے اور بغیر مانگے یہ مال تمہارے پاس آئے تو اس کو لے لو صحیح مسلم میں ہے کہ پھر اس مال کو لے کر صدقہ کرو اور جو مال اس طرح نہ ہو تو اس کے لئے اپنے آپ کو نہ تھکاؤ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہر چیز کی ایک چابی ہوتی ہے اور جنت کی چابی مساکین اور فقراء کی محبت ہے۔ مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ یہ گمان کرتے تھے کہ ان کو دوسروں پر فضیلت ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صرف کمزور لوگوں کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تم کو رزق دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کی آمدنی کم ہو اور اس کے بچے زیادہ ہو اور وہ اچھی طرح نماز پڑھے اور مسلمانوں کی غیبت نہ کرے میں اور وہ قیامت کے دن ان دو انگلیوں کی طرح ایک ساتھ ہوں گے۔ محمود بن لبید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو چیزوں کو ابن آدم ناپسند کرتا ہے موت کو اور موت کے فتنوں سے بہتر ہے اور مال کی کمی کو ناپسند کرتا ہے، مال کی کمی کی وجہ سے حساب کم ہوتا ہے۔اللہ اکبر اللہ اکبر، ہم کیسے زعم میں رہتے ہیں کیسے اتراتے ہیں اپنے مال پر، اللہ کی طرف سے عطاء  کردہ نعمتوں پر اتراتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ یہ سب ہمیں کیوں عطا  فرما رہے ہیں۔ ہم کمزوروں سے دور بھاگتے ہیں اور حضرت عمر فقرا اور مساکین کی محبت کو جنت کی چابی قرار دے رہے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پکڑا اور فرمایا دنیا میں اس طرح رہو جیسے مسافر ہو یا راستہ عبور کرنے والا اور اپنا شمار قبر والوں میں کرو۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا جب تم صبح اٹھو تو شام کی توقع نہ کرو بیماری آنے سے پہلے صحت کے ایام میں نیک عمل کر لو اور موت آنے سے پہلے زندگی میں نیک عمل کر لو اور اے بندہ خدا تم نہیں جانتے کہ کل تمہارا نام کیا ہوگا۔
 حضرت عبداللہ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور دنیا کی مثال اس طرح ہے جس طرح کوئی سوار ہو وہ کسی گرم دن میں ایک درخت کے نیچے ہے تھوڑی دیر تک قیلولہ کر کے آرام کرے اور پھر اس کو چھوڑ دے۔ 
حضرت سعد بن ابی وقاص اس رضی اللہ تعالی عنہ حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت کرنے کے لیے گئے تو وہ رونے لگے حضرت سعد نے کہا کیا چیز یا رلا رہی ہے تو کہنے لگے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ تمہارے پاس فقط اتنا مال ہونا چاہیے جتنا ایک مسافر کے پاس سفر کا خرچ ہوتا ہے اور اب میرے اردگرد تکیے لگے ہوئے ہیں۔ ان کے اردگرد تکیہ تھا، ٹب تھا،  وضو کا سامان تھا۔ حضرت سعد  نے کہا آپ ہم کو نصیحت کیجئے جس پر ہم آپ کے بعد عمل کریں حضرت سلمان نے کہا جب تم کو کوئی پریشانی ہو اور جب تم کوئی فیصلہ کرو اور جب تم مال تقسیم کرو تو اللہ کو یاد کرو کرو۔ حضرت ابو الدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے مجھے ضعیف اور کمزور لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ صرف کمزور اور ضعیف لوگوں کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ 
ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ ذہنی و قلبی سکون دوسروں کی مدد کرنے، کمزوروں کا خیال رکھنے، محروم لوگوں تک ان کا حق پہنچانے میں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے، اللہ ہمیں قرآن پڑھنے سمجھنے، قرآن کی تعلیمات کو زندگیوں پر نافذ کرنے، قرآنی تعلیمات کو عام کرنے اور اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین آمین

ای پیپر دی نیشن