سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے  جنسی زیادتی کے مجرمان کی سرعام پھانسی کا بل منظور کرلیا

 سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بچوں  اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے  کے مجرمان کی سرعام پھانسی کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا، کمیٹی کی کارروائی کو بلڈوز کرنے کا الزام عائدکرتے ہوئے قائد ایوان  شہزاد وسیم واک آئوٹ کرگئے،قائمہ کمیٹی نے  مجموعی طورپر تین بلز کی منظوری دی ہے  جبکہ ایف آئی اے سے پٹرولیم اسکینڈل کے معاملے پر متعلقہ ادارے میں افسران کی اہلیت سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔ قائمہ کمیٹی نے  اسلحہ لائسنس کی یکساں پالیسی کے  حکومتی بل کی بھی  حمایت کردی ہے ۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ امور کا اجلاس منگل کو کمیٹی کے چیئرمین  سینیٹر رحمن ملک کی صدارت میں ہوا۔ بچوں اور بچیوں سے  جنسی زیادتی کے مجرمان کی سرعام سزائے موت سے متعلق  پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر جاوید عباسی کے بل کا  جائزہ لیا گیا۔ قائد ایوان  شہزاد وسیم نے بتایا کہ اس معاملے پر حکومت دو  آرڈیننس  جاری کرچکی ہے  جو وزارت داخلہ اور وزارت  قانون کے پاس موجود ہوں گے ۔ سیکرٹری داخلہ اور قانون و انصاف کے حکام نے مجوزہ حکومتی قانون سازی کی تصدیق کی تاہم ارکان کے بار بارمطالبے پر حکومتی بل کے مسود کے بارے میں کمیٹی کو آگاہ نہ کیا جاسکا۔ قائد ایوان نے کہاکہ فی الحال نجی بل کو موخر کردیا جائے اور حکومتی  قانون سازی کی تجاویز بھی  طلب کی جائیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے مطالبہ کیا کہ کمیٹی کا اختیار  بل کو منظور یا مسترد کرنے کا ہے ابھی فیصلہ کیا جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ یہ بل  ایوان کو بجھوا دیتے ہیں اور سرکاری مسودے کو بھی یکجا کردیا جائے گا۔ قائد ایوان نے کہاکہ فی الوقت حتمی فیصلہ نہ کیا جائے  آرڈیننس اور سرکاری مسودہ آنے دیا جائے۔ بل کے محرک کے مطالبے پر چیئرمین کمیٹی نے  رائے شماری کروا دی، تین ارکان سینیٹر نصرت شاہین، سینیٹرشفیق ترین اور بل کے محرک نے حمایت کی بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ قائد ایوان شہزاد وسیم نے کہاکہ کارروائی کو بلڈوز کیا جارہا ہے وہ بائیکاٹ کرگئے۔ کمیٹی نے اسی طرح قبروں سے میت نکال کر اس کی بے حرمتی کرنے کے ملزمان کی سزا کے بل کو بھی منظور کرلیا اس بل کے محرک بھی مسلم لیگ ن کے متذکرہ   سینیٹر ہیں ۔ بل کے تحت قبروں اور میت کی بے حرمتی  کرنے والوں کو قابل گرفت بنایا جاسکے گا۔ کمیٹی نے ٹریفک حادثات سے متعلق قانون میں ترمیم کا بل بھی  منظور کرلیا, اس بل کے محرک بھی سینیٹر جاوید عباسی  ہیں, بل کے تحت ٹریفک حادثے میں کسی شہری کی موت پر اس  کے لواحقین  کو مقدمے کی سماعت کے دوران معاوضے کی ادائیگی کا پابند بنایا جائے گا۔ ٹریفک حادثے کے حوالے سے ڈرائیور ،گاڑی کے مالک  اور انشورنس کمپنی کو بھی جوابدہ بنایا جارہا ہے۔ کمیٹی نے  تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کا نوٹس لیتے ہوئے  سینیٹر جاوید عباسی  کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ  ایسا بل تیار کریں جس کے تحت  تعلیمی اداروں میں سالانہ  طلبہ و طالبات کا میڈیکل ٹیسٹ ہوگا، منشیات کے استعمال کی نشاندہی پر متعلقہ طالبعلم کو تین سال کیلئے تعلیمی ادارے سے خارج کیا جاسکے گا۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں سپلائرز کے حوالے سے  سخت سزا کی شقیں بھی شامل ہوں گی۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہاکہ افغانستان میں پیدا ہونے والی اس منشیات کے اثرات پاکستان  پر مرتب ہورہے ہیں تاہم مواد اگر ادھر سے آتا ہے تو اس کی تیاری یہی کی جاتی ہے۔ مجھے گوجرانوالہ میں  ایک ایسی فیکٹری میں بتایا گیا جہاں نشہ آورگولیاں تیار کی جاتی ہیں جو 20روپے میں فروخت ہوتی ہے اور اس سے  منشیات کے استعمال کارجحان بڑھ رہا ہے۔ منشیات کی کئی اقسام آگئی ہیں۔ خیبرپختونخوا سے مجھے اطلاع ملی کہ وہاں بھی سستے اور کم دام پر نشہ آور گولیاں فروخت ہورہی ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران  ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ  تیل کے بحران کے حوالے سے  تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ تیل کے متعلقہ ادارے میں  عہدوں پر متعلقہ ماہرین ہی تعینات نہیں ہیں۔کسی افسر کے گریڈ پر اعتراض نہیں ہے اصل مسئلہ مہارت کا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے  او جی ڈی سی ایل میں تعینات  تمام افسران کی  فہرست بشمول اہلیت کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے  اسلحہ لائسنس کی نئی حکومتی پالیسی کی بھی حمایت کردی ہے۔ یہ بل  سینیٹ کو بجھوا دیا گیا ہے۔ بل کے تحت  ممنوعہ و غیر ممنوعہ  بور کے اسلحہ  لائسنس کی  یکساں پالیسی ہوگی۔ سیکرٹری داخلہ کے پاس اختیار ہوگا  اور پالیسی میں امتیاز کو ختم کردیا گیا تھا۔ سابقہ پالیسی میں ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان  اور گریڈ 20 کیلئے  الگ سے پالیسی تھی جس سے عوام مستفید نہیں ہوسکتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اس امتیاز کو ختم کردیا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے جنسی زیادتی کے مجرمان کی سرعام پھانسی  کے جس بل کی منظوری دی ہے اس کے تحت ان مقدمات میں صلح بھی نہیں ہوسکے گی۔ ہائیکورٹ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرتے ہوئے 30 دنوں میں فیصلے کرے گی۔ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل پر اعلیٰ عدالت  تین ماہ میں فیصلہ کرے گی اور مجرمان کوسرعام پھانسی  پر لٹکایا جاسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن