اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) نامزد چیف جسٹس‘ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے لوگ عدالتی فیصلوں پر تنقید کی بجائے ججز کو بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں، یہ رویہ غیر پیشہ ورانہ اور غیر مہذب ہی نہیں بلکہ غیر آئینی بھی ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس بارے میں ایکشن لیں بار ایسوسی ایشن ہماری مدد کرے۔ عدلیہ کو اپنا اختیار اور ذمہ داریوں کو آئین وقانون کے مطابق جوش کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں نامزد چیف جسٹس نے معاشی و سماجی مسائل اور آبادی میں بے ہنگم اضافے کے معاملات پر تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنے پر زور دیا اور کہا کہ تنازعات کے فوری حل کے لیے سپریم کورٹ کے براہ راست دائرہ اختیار کو بھی استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے عدالت میں زیر سماعت مقدمات جلد نمٹانے کے لئے تجویز دی کہ وکلا مقدمات کے التوا کی حوصلہ شکنی کریں اور مقدمات میں تحریری معروضات اور جامع بیان جمع کیا کریں جبکہ سائلین کو ریلیف دینے کے لیے عدالتوں کا پرفارمنس آڈٹ کرانے کی بھی تجویز دی۔ انہوں نے میڈیا خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر ججوں کو بدنام کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ غیر مہذب اور غیر پیشہ ورانہ ہے۔ ہماری رائے میں اختلافات ہمارے عدالتی تصورات کی بدولت ہو تے ہیں، یہ تنوع ہماری سوچ اور ادراک میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور سوچ میں اس تنوع کی وجہ سے پچھلے روز کا اقلیتی موقف آنے والے کل کا اکثریتی مو قف بن جاتا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ کچھ مبصرین جو کہ میڈیا میں اہم پیشہ سر انجام دیتے ہیں خاص طور پر سوشل میڈیا کے لوگ جو کہ فیصلوں پر تنقید کی بجائے ججز کو بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں، یہ رویہ غیر پیشہ ورانہ اور غیر مہذب ہی نہیں بلکہ غیر آئینی بھی ہے، مہربانی کر کے سمجھ لیں کہ اس بارے میں کچھ کرنا ہو گا۔ انہوں نے ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ جب جسٹس گلزار احمد چیف جسٹس بنے تو اس وقت سپریم کورٹ کو دو چیلنجز کا سامنا تھا جس میں پہلا چیلنج تو کرونا وبا تھا جس کا سامنا پاکستان سمیت پوری دنیا کو تھا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے دفاتر بند کرنے کی سفارشات سامنے آئیں۔ چیف جسٹس کے مصمم ارادے کے تحت عدالتوں نے پوری وبا کے دوران دروازے کھلے رکھے، اس دوران چیف جسٹس سمیت آٹھ ججز کو اس وبا کا سامنا کرنا پڑا لیکن عدالتوں نے اپنے دروازے کھلے رکھے۔ دوسرا چیلنج ہمارے ہی ایک ساتھی جج کی جانب سے صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر کردہ آئینی درخواست تھی، سپریم کورٹ کے دس ججوں نے سترہ ماہ تک اس کیس کی سماعت کی۔ اس دوران سپریم کورٹ کے ریگولر بینچز کی کاز لسٹ کو کم کرنا پڑا، دسمبر 2019ء میں بیالیس ہزار کیسز زیر التوا تھے جبکہ اپریل2021میں زیر التوا کیسز کی تعداد بڑھ کر پچاس ہزار تک جا پہنچی، اس دوران باقی جو چھ سات ججز بچ گئے ان کو جان جوکھوں میں ڈالنا پڑی، چھٹیوں کے دوران بھی ہر جج نے کام کیا، سردی ہو یا گرمیوں کی چھٹیوں میں ہر جج نے آئین اور قانون کے مطابق کیسز کو نمٹایا اور انشاء اللہ ہم زیر التوا کیسز کو نمٹانے کے لیے اپنی محنت جاری رکھیں گے۔ جسٹس گلزار احمد نے ججوں کی نا مزدگی میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔گزشتہ ہفتے انہوں نے سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج جسٹس عائشہ اے ملک سے ان کے عہدے کا حلف لیا، یقیناً اس سنگ میل کا کریڈٹ جوڈیشل کمشن اور پارلیمانی کمیٹی کو جاتا ہے لیکن جسٹس گلزار احمد کا اس بارے کردار قابل تحسین ہے۔ فوجداری مقدمات میں ناکام استغاثہ ناکام انوسٹی گیشن کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اس میں آبادی کا تناسب بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ اختیارات میں توازن آئینی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ اختیارات میں توازن ریاستی اداروں کے دائرہ اختیار کو یقینی بناتا ہے۔ قانون کا پیشہ میرے لئے محض روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ سب کچھ تھا۔ میں نے اپنی قابلیت اور کام کے ذریعے چیلنجر کا سامنا کیا۔ عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد کرونا شروع ہونے سے مشکلات کا سامنا رہا۔ میرے دور میں 36680 مقدمات دائر ہوئے جس میں سے 27426 مقدمات نمٹائے گئے۔ بطور چیف جسٹس 4342مقدمات کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کی بالادستی کے لیے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پا کر بھاگ جائے گا۔ بار اور بنچ میں ایسی شخصیات تھیں جنہوں نے طاقت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ عدلیہ اپنی آزادی کے دفاع میں متحد ہوتی تو 2007 میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ جسٹس گلزار احمد کے دور میں عدلیہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے کہا چیف جسٹس گلزار احمد اور بعض دوسرے ججز کی بطور جج تعیناتی میں سینیارٹی کے اصول کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بار، وکلا برادری کی بہبود سے متعلق معاملات میں چیف جسٹس گلزار احمد نے سرپرستی کی ہے، ان کا بہت اہم کردار رہا ہے، چیف جسٹس گلزار احمد نے مقامی حکومتوں کی تحلیل کیخلاف تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے، سات ماہ گزرنے کے باوجود مقامی حکومتوں کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ علاوہ ازیں جسٹس گلزار احمد ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے آخری کیس موٹر وے پولیس اہلکار مقصود احمد کی ملازمت سے متعلق سنا۔ عدالت نے مقصود احمد کی ملازمت برطرفی کے خلاف درخواست ابتدائی سماعت کیلئے منظور کر لی۔