دو ہزار بائیس کا دوسرا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔یہ ستمبر دو ہزار انیس کے شروع کے دن تھے جب گگلی ماسٹر عبدالقادر کا انتقال ہوا۔ عبدالقادر کوئی معمولی انسان نہیں تھے۔ وہ لیگ سپن باؤلنگ میں صرف پاکستان ہی نہیں دنیائے کرکٹ کا بہت بڑا نام تھے۔ چھ ستمبر کو عبدالقادر کا انتقال ہوا سات ستمبر کو ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پاکستان کے اس عظیم کھلاڑی کے انتقال پر صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت پاکستان کی نمایاں شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا جبکہ دنیا بھر کے کرکٹرز گگلی ماسٹر کے انتقال پر غمزدہ تھے۔ حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما تعزیت کے لیے آتے رہے۔ اس دوران انفنٹری روڈ کا نام بدل کر عبد القادر روڈ رکھنے یا پھر شہر میں کسی بھی سڑک، انڈر پاس یا فلائی اوور کو پاکستان کے اس عظیم کھلاڑی کے نام سے منسوب کرنے کے بیانات دیے گئے۔ دو ہزار انیس گذرا، دو ہزار بیس بھی گذر گیا، دو ہزار اکیس بھی کئی خوشگوار اور ناخوشگوار واقعات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور اب دو ہزار بائیس کا پہلا مہینہ بھی ختم ہو گیا لیکن عبدالقادر کی خدمات کے اعتراف میں پنجاب حکومت یا تعزیت کے لیے آنے والے حکومتی نمائندے آج تک وعدہ نہیں نبھا سکے۔ شاید یہ سال بھی ایسے ہی گذرے گا۔ عبدالقادر کھیل کے میدان میں ایک تصدیق شدہ ہیرو اور نوجوانوں کے لیے مثال تھے لیکن شاید اقتدار کے ایوانوں میں وزیراعظم عمران خان سمیت کوئی ان کا نام لینے والا یا ان کے لیے آواز بلند کرنے والا یا پھر بااختیار لوگوں کو گگلی ماسٹر کی یاد دلانے والا کوئی نہیں ہے۔ حکمرانوں کے نزدیک تو ویسے بھی وعدے کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی ان کے دلوں میں عام آدمی جیسا دل دھڑکتا ہے ان کے سینے میں دل تو ہوتا ہے لیکن وہاں تکلیف صرف اپنے لوگوں کے لیے ہوتی ہے، وہ سوچتے تو ہیں لیکن صرف اپنے مستقبل کے لیے، وہ سوچتے ہیں تو آئندہ انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے، دو ہزار انیس سے اب تک کئی سیاسی لوگوں کے نام پر ان کے علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے ایسے لوگ جنہیں ان کے حلقے سے باہر بھی لوگ نہیں جانتے لیکن اس نظام نے انہیں یہ طاقت دی ہے کہ وہ ٹیکس کے پیسوں سے اپنے بزرگوں کے نام کی تختیاں لگوا سکتے ہیں، سڑکیں، پل اور ہسپتال بنوا سکتے ہیں لیکن وہ عبدالقادر جسے دنیا جانتی ہے جس نے دنیا میں ملک کا نام روشن کیا جس کی وجہ سے لوگ پاکستان کا نام عزت سے لیتے ہیں اس عبدالقادر کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں، اس عبدالقادر کے لیے کسی کے پاس طاقت یا اختیار نہیں ہے۔ عبدالقادر انڈر پاس، عبدالقادر روڈ، عبدالقادر فلائی اوور، عبدالقادر ہسپتال بنانے یا نہ بنانے اس عظیم کرکٹر کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس عمل سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو کیسے یاد رکھتے ہیں۔ اس عمل سے عبدالقادر کی طرح کامیاب کرکٹر بننے کے لیے نوجوانوں میں ایک تحریک پیدا کی جا سکتی ہے لیکن شاید حکمرانوں کے نزدیک اس پہلو کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اہمیت ہے تو صرف اپنے سیاسی مستقبل کی انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عبدالقادر کون تھا، عبدالقادر کی کیا خدمات ہیں۔ ایسے کھلاڑیوں کو ملنے والے اعزازات کے لیے اعزاز ہوتا ہے کہ وہ ان کے گھروں میں پڑے ہیں۔ لگ بھگ ڈھائی سال گذرنے کے بعد "باؤ جی" کے گھر تعزیت کے لیے جانے والوں میں کسی کو اپنے الفاظ کی اہمیت کا اندازہ ہو تو اس طرف ضرور غور کریں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ کچھ کریں لیکن اپنے وعدے پر غور کریں کیا مہذب قوموں کے رہنما اپنے الفاظ پر پہرہ نہیں دیتے، کیا ان کے نزدیک لاکھوں کروڑوں لوگوں تک پہنچی ہوئی بات یا میڈیا کے سامنے کیے ہوئے وعدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
شاید ہم بیحسی میں خود کفیل ہیں یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ادھار لینے کی ضرورت نہیں۔ ہر دوسری جگہ اس کی بڑی بڑی مثالیں نظر آتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری اس صلاحیت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ عبدالقادر کے انتقال اور اس کے بعد کی صورتحال یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو یاد رکھنے یا ان کی خدمات کا اعتراف کرنے میں کیسی کنجوسی یا بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
گگلی ماسٹر کو تو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں اور جب تک لیگ سپن باؤلنگ رہے گی یاد کیا جاتا رہے گا اسی طرح ان کے انتقال پر وعدے کرنے اور وعدہ خلافی کرنے یا انہیں نظر انداز کرنے والوں کو بھی قوم نہیں بھولے گی۔
"باؤ جی" تو چلے گئے خدمات کا اعتراف تو دور کی بات ہے کچھ "خیر خواہ" ان کے نام سے چلنے والی عبدالقادر اکیڈمی کو بھی بند کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اکیڈمی میں سلمان قادر والد کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن ایل سی سی اے گراؤنڈ پر ان لوگوں کا کنٹرول ہے جنہوں نے کھیل کے میدانوں کو تالے لگوائے اور اس تاریخی گراؤنڈ پر بھی ایسا چکر چلایا ہے کہ وہاں کھیلنے والے سینکڑوں کرکٹرز ہر وقت خوف کا شکار رہتے ہیں کہ ابھی "اوپر" سے حکم آئے گا اور گراؤنڈ میں داخلہ بند کر دیا جائے گا۔ یہاں پی اینڈ ٹی کا نیٹ بھی لگتا ہے قومی ٹیم کے سابق مینجر اظہر زیدی روزانہ گراؤنڈ آتے ہیں۔ علیم ڈار، احسن رضا، عبدالرزاق اور عمران نذیر سمیت کئی نامور کرکٹرز کا تعلق اس کلب سے ہے لیکن کیسا زمانہ آ گیا ہے کہ یہ معروف کرکٹرز بھی اپنے کلب بارے کچھ نہیں بول سکتے۔ سب کو چھوڑیں قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے کلب کا نیٹ بھی یہیں لگتا ہے یہ سارے لوگ مل کر بھی وہ نہیں کر سکتے جو اکیلے عبدالقادر کر سکتے تھے۔ کوئی خاموش رہے یا بولے لیکن تاریخ تو لکھی جا رہی ہے۔
عبدالقادر کو بھولنے والوں کے نام!!!!!
Feb 02, 2022