صدارتی کو جرنیلی نظام کہا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے صدارتی نظام کوخلائی نظام سے تشبیہ دی ہے۔ سعید آسی نے اپنے کالم میں لکھا ’’خدارا زہر کو تریاق بنا کر پلانے سے اب گریز کیجئے کہ ہمارے پاس کھونے کو بچا ہی کیاہے‘‘ ۔ صدارتی نظام کو جرنیلی نظام اس لیے کہا جاتا ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف صدور مملکت رہے۔ صدارتی نظام یعنی عسکری امریت میں جتنے بھی صدور رہے، انھو ں نے تقریباََ دس سال حکومت کی جبکہ جمہوریت یعنی منتخب وزیراعظم کو اقتدار سنبھالے دو تین برس ہی ہو پاتے ہیں کہ ان کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دی جاتی ہیں۔ صدر جنرل ایوب خان نے تو باقاعدہ دس سالہ جشن بھی منایا۔ سب سے پہلا مارشل لا جنرل اعظم کا مارشل لا کہلاتا ہے۔
اسکے بعد منیر کمیٹی بنی جس نے پنجاب کی بدامنی کے بارے میں اپنی رپورٹ دی۔ اگروہ رپورٹ آپ پڑھیں تو ظاہر ہو گا کہ علماء ان کے سامنے گواہی کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ ان کا آپس میں لفظ ’’مسلم‘‘ کی تشریح پر اختلاف تھا۔ اس کمیٹی میں جسٹس منیر کے علاوہ جسٹس کیانی بھی بیٹھے ہوتے تھے۔ دو ممبروں نے منیر کمیٹی کی رپورٹ تیارکی یعنی اس موقع پر ہم نے پہلی مرتبہ اسلام کو بطور سیاسی حربے کے استعمال کیا اور نتیجہ مارشل لا تھا۔ جب ایوب خان میدان میں آیا اور مارشل لا لگا تو 1956ء کے آئین کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ آمریت کا دور شروع ہوتا ہے۔ ایوب خان کی آمریت کو قانونی طور پر تحفظ دیا گیا۔ایوب خان اکتوبر 1958ء تا 1962ء مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، 1958ء تا 1969ء تک صدر پاکستان رہے۔ صدر کنونشن مسلم لیگ بھی رہے۔ ایوب خان نے Friends not masters کے نام سے خودنوشت لکھی۔ ایوب خان کا انتقال 20 اپریل 1974ء میں ہوا۔ تدفین ان کے آبائی گاؤں ریحانہ، ہری پور (خیبرپختونخوا) میں ہوئی۔ ایوب خان نے اپنے بنائے ہوئے 1962ء کے آئین سے انحراف کیا۔ اس آئین کے تحت اگر ایوب خان دستبردار ہوتا ہے تو سپیکر صدر بنتا ہے لیکن اس نے سپیکر کو صدر نہیں بنایا۔ یحییٰ خان کو صدر بنایا گیا۔ اس کو عوامی سند تو حاصل نہیں تھی نہ یہ عوام کے ووٹو ں سے آیا تھا۔ یہ عسکری آمر تھا۔ اس نے پیرٹی کے اصول کو ختم کیاجس کا 62ء کے آئین میں بھی لحاظ رکھا گیا تھا۔ آمریت ہی کے سبب ملک دو ٹکڑے ہوا۔ جنرل ضیاء احق رجعت پسند کے طور پر جانے جاتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سنسرشپ بہت سخت تھا۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کے اشعار بھی سنسر کی زد میں آ جاتے مثلاََ علامہ صاحب کے اس قسم کے اشعار کیسے ہضم ہو سکتے تھے:۔؎
کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد
دستور نیا اور نئے دور کا آغاز
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ضیاء الحق کا مشن جمہوریت سازی نہیں۔ جمہوریت کی نفی یا جمہوریت سوزی تھا۔ جمہوریت کے بعض اصول ہیں اور انکے مطابق ہی ہم نے چلنا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کے الزام میں میاں نواز شریف کی حکومت کاتختہ الٹ دیا گیا۔ پرویز مشرف پی آئی اے کی پرواز 805 میں 198 مسافروں سمیت سفر کر رہے تھے۔ طیارہ کولمبو سے آ رہا تھا۔ اسے کراچی ائر پورٹ پر اترنے نہ دیا گیا۔ ہوائی جہازکے کپتان ثروت حسین نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ اسکے پاس ز یادہ تیل نہیں ہے لہذٰا جہاز کو نواب شاہ ائرپورٹ پر اترنے کی اجازت مل گئی۔ جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء کو جس طرح برسر اقتدار آئے۔ یہ کہانی کسی سنسنی خیز جاسوسی فلم سے کم دلچسپ نہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ہوا میں اڑتے آرمی چیف، جس کا اپنے ادارے کے ساتھ رابطہ منقطع ہے، ایسے میں فوج پاکستان میں چوتھی کامیاب ملٹری کودیتا (حکومت میں انقلاب) کر دے تو کیا یہ ہالی وڈ کی کسی کہانی سے مختلف نہیں؟ اس ملٹری Coup d' etat کے برپا ہونے پر پاکستان کے دانشوروں نے اس کو پاکستان کے اندر تیار کی گئی ملٹری کودیتا قرار دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ پرویز مشرف اپنے آپ کو روشن خیال اور لبرل کہتے ہیں۔ انھوں نے آل پاکستان مسلم لیگ بنائی جس کے منشور میں چھپا ہے ’’روشن خیال قوم کے طور پر دنیا سے تعلقات‘‘ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں 34 سال فوج نے حکومت کی۔ باقی سال بیوروکریٹوں، غیر منتخب سیاست دانوں اور منتخب سیاست دانوں نے حکومت کی۔ یہ ریکارڈ مایوس کن ہے۔ پاکستان کا پہلا فوجی حکمران عوام کی سرکشی کے نتیجے میں رخصت ہوا۔ دوسرا مارا گیا۔ مشرف کا کیا بنے گا؟ اسے غداری اور دیگر مقدموں کا سامنا ہے۔ وہ دبئی میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہاہے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان عوام کی بات، تبدیلی اور نیا پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ عوام کہتے ہیں۔ تبدیلی کب آئے گی؟